مزید دیکھیں

مقبول

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں...

پیمرا میں مالی کرپشن،عہدے کا ناجائز استعمال،دو ملازمین برطرف

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے مالی کرپشن...

ڈاکٹروں کا مسیحائی سے ناجائز منافع خوری تک سفر

ڈاکٹروں کا مسیحائی سے ناجائز منافع خوری تک سفر
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جنوری کے مہینے میں ملک بھر میں صحت کی سہولتوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا،ایک ماہ کے دوران میڈیکل ٹیسٹ کی فیسوں میں 5.36 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 15.16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کلینک، ڈینٹل سروسز، ہسپتالوں اور ادویات کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس نے عام عوام کے لیے صحت کی سہولتوں تک رسائی مزید مشکل بنا دی ہے۔ جنوری میں کلینک کی قیمتوں میں 4.28 فیصد، ڈینٹل سروسز میں 2.22 فیصد اورہسپتالوں میں 0.36 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ادویات کی قیمتوں میں 0.52 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس صورتحال نے صحت کے شعبے میں ایک نئی مہنگائی کی لہر پیدا کی ہے جو عوام پر اضافی مالی بوجھ ڈال رہی ہے۔

صحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان میں یہ حق عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ شہریوں کو صحت کی سہولتوں تک رسائی میں جو رکاوٹیں ہیں وہ نہ صرف سماجی بلکہ اقتصادی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان میں صحت کا نظام ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے جہاں ایک طرف سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار ہے تو دوسری طرف نجی ہسپتالوں میں علاج معالجہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔

ڈاکٹروں کی ہوس زر میں مبتلا ہونے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب مریض ڈاکٹر سے اپنی بیماری کا چیک اپ کرانے جاتا ہے تو سب سے پہلے باہر کاؤنٹر پر فیس کے نام پر مریض سے بھاری رقم ہتھیائی جاتی ہے، اس پربس نہیں ہوجاتی بلکہ یہاں سے مریض جو کہ پہلے ہی بیماریوں کی وجہ سے بہت تنگ ہوتا ہے جب ڈاکٹرز کے کیبن میں پہنچتا ہے تو ڈاکٹر اسے تسلی دینے کی بجائے اسے ڈراتا ہے اور ڈاکٹر کا یہیں سے ڈر کا بزنس شروع ہوتا ہے اور مریض سے کہتا ہے میرے خیال میں آپ کی بیماری خطرناک سٹیج پر پہنچی ہوئی ہے، آپ کو لیبارٹری ٹیسٹ کرانے ہوں گے، ساتھ میں الٹراساؤنڈ اور ایکسرے بھی ضروری ہیں، کاؤنٹر پر لڑکا آپ کو سمجھا دے گا ،یہ تمام ٹیسٹ کراکر آئیں پھر دوائی لکھوں گا۔

جب مریض کے لواحقین کاؤنٹر پر لڑکے کے پاس جاتے ہیں تو لڑکا کہتا ہے کہ یہ خون اور پیشاب کے ٹیسٹ آپ نے فلاں لیبارٹری سے کرانے ہیں، الٹراساؤنڈ اور ایکسرے فلاں سے کراکر لائیں اوراگر کوئی مریض دوسری لیبارٹری، الٹراسونوگرافکس، ایکسرے کے بارے میں کہتا ہے ہمارے اپنے جاننے والے ہیں ہم ان سے کراکر لاتے ہیں تو فوری طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کی رپورٹ ٹھیک نہیں ہوتی اور ڈاکٹر صاحب وہ رپورٹ نہیں مانیں گے لہذا آپ کو جہاں کا کہا گیا ہے صرف وہاں سے تمام ٹیسٹ کراکر لاؤ۔

جب تمام رپورٹس آجاتی ہیں پھر دوائی لکھی جاتی ہے، دوائی بھی وہ لکھی جاتی ہے جو صرف ان کی کلینک یا ہسپتال کی اٹیچ فارمیسی سے ہی ملتی ہے، شہر کے بڑے بڑے میڈیکل سٹورز پر ڈاکٹر کے نسخے پر لکھی ہوئی ادویات نہیں مل پاتیں کیونکہ ڈاکٹر نے وہ کٹ ریٹ میڈیسن کمپنیوں سے اپنے برانڈ نیم بنوا کر پیک کرائی ہوئی ہوتی ہیں ،جن پر اپنی مرضی کی بھاری قیمت لکھوائی جاتی ہے۔ جس لیبارٹری ،الٹراساؤنڈ یا ایکسرے سنٹر سے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں وہاں سے ڈاکٹر 50فیصدکمیشن لیتا ہے اور اس لیبارٹری کی رپورٹ بھی ٹھیک ہوتی ہے جو ڈاکٹر کو بھاری کمیشن نہ دیں ان کی رپورٹ غلط قرار دے دی جاتی ہیں۔

اگر ایک متوسط اور غریب طبقے کے فرد کی بات کی جائے تو اسے صحت کی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے سرکاری ہسپتالوں کا حال دیکھ لیں، جہاں مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے لیکن ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور عملے کی تعداد اس کے مقابلے میں کم ہوتی جا رہی ہے، ایک عام شہری جب بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ سرکاری ہسپتال کا رخ کرتا ہے لیکن وہاں اسے لمبی قطاروں اور طبی عملے کی عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹرز یا تو چھٹی پر ہوتے ہیں یا پھر ان کے آنے کاکوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال مریض کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔

دوسری طرف نجی ہسپتالوں کا منظرنامہ بالکل مختلف ہے۔ یہ ہسپتال جدید مشینری اور بہترین سہولتوں سے لیس ہوتے ہیں لیکن ان کی فیسیں عام شہریوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ شہری جو معاشی طور پر مستحکم نہیں ہیں، اپنے علاج کے لیے کہاں جائیں اور کیا کریں؟ انہیں کیا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔
پاکستان میں صحت کی سہولتوں تک رسائی کا ایک اور سنگین پہلو دیہی علاقوں کی حالت زار ہے۔ شہر میں رہنے والے لوگ شاید اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ دیہاتوں میں صحت کی سہولتیں کتنی ناقص ہیں۔ ان علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز کی کمی، ڈاکٹرز کی عدم موجودگی اور سہولتوں کا فقدان ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کو اپنے علاج کے لیے میلوں سفر کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات وہ اپنی بیماری کی سنگینی کو سمجھنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ حکومت نے صحت کی سہولتوں کے نام پر جو منصوبے بنائے تھے، وہ کہاں تک پہنچے؟ اگرچہ حکومت کی طرف سے ہر سال صحت کے شعبے میں بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ یا تو بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے یا پھر ان منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے جو عام آدمی کی رسائی میں نہیں ہوتے۔پاکستان کے صحت کے نظام میں ایک اور اہم مسئلہ ادویات کی عدم دستیابی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کا وعدہ تو کیا جاتا ہے لیکن مریضوں کو اکثر اوقات باہر سے مہنگی دوائیں خریدنی پڑتی ہیں۔ فارمیسیز میں ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور عام آدمی کے لیے دوا خریدنا تقریباََ ناممکن ہوچکاہے۔ اس صورتحال میں لوگ عطائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کا سہارا لیتے ہیں جو ان کی بیماری کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔

حکومت نے مختلف ادوار میں صحت کے شعبے میں اصلاحات کے دعوے کیے ہیں۔ صحت کارڈ جیسے پروگرامز متعارف کروائے گئے تھے، جن کا مقصد یہ تھا کہ ہر شخص کو معیاری صحت کی سہولتوں تک رسائی حاصل ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان پروگرامز کا فائدہ صرف چند فیصد افراد تک پہنچ سکا۔ وہ لوگ جو ان پروگرامز سے مستفید ہو سکتے ہیں ان تک معلومات ہی نہیں پہنچ پاتیں اور جن کے پاس کارڈ موجود ہوتا ہے، انہیں مطلوبہ علاج نہیں ملتا۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان کا صحت کا نظام ایک کھوکھلی عمارت کی طرح لگتا ہے، جس کی بنیادیں کمزور ہیں اور جسے کسی بھی وقت گرنے کا خطرہ ہے۔ عوام کا اعتماد سرکاری ہسپتالوں پر سے ختم ہو چکا ہے اور نجی ہسپتالوں میں جانے کی استطاعت صرف اشرافیہ کو حاصل ہے۔ اس ستم ظریفی کا شکار وہ عام شہری ہوتا ہے جو اپنی بیماری کا علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتا۔

بدقسمتی سے بیشتر ڈاکٹروں نے مسیحائی کے جذبے کو منافع خوری میں بدل دیا ہے۔ نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں علاج سے زیادہ کمائی کو ترجیح دی جانے لگی ہے اور مریضوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر اورفارما کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مریضوں کو زائد اور غیر ضروری ادویات کے نسخے تجویز کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر پرائیویٹ میڈیسن کمپنیوں سے ڈیل کر کے لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ غریب عوام پر بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے، جس میڈیسن کی ضرورت نہیں ہوتی وہ بھی مریض کو لکھ کر دے دیتے ہیں۔

صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے ہمیں اپنے نظام کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو سرکاری ہسپتالوں میں عملے کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ مریضوں کو بروقت علاج مل سکے۔ دیہی علاقوں میں مراکز صحت کا قیام اور ان میں ضروری سہولتوں کی فراہمی لازمی ہے تاکہ دیہی عوام بھی معیاری علاج کی سہولت سے مستفید ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس صورتحال کا سخت نوٹس لے اور مسیحائی کے روپ میں چھپے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والے ان ڈاکٹرز اور طبی اداروں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جائیں تاکہ غریب اور لاچار عوام کو ان سوٹڈ بوٹڈ ڈاکوئوں کی لوٹ مار سے بچایا جا سکے۔ حکومت کی جانب سے مؤثر اقدامات عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں ایک مثبت قدم ثابت ہوں گے اور معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے اہم سنگ میل ہوں گے۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں