ہمارے لوگ عام طور پہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ امریکہ نے اپنی کرنسی کا نام ڈالر رکھا تو امریکہ کی مقبولیت اور طاقت کی وجہ سے یہ نام پھیلا۔
جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ ڈالر نام کی کرنسی کا امریکہ سے کوئی تعلق نہ تھا اور یہ امریکہ کی دریافت سے قبل ہی مقبول عالمی کرنسی بن چکی تھی۔
اس کا آغاز قرون وسطی کے اواخر میں یورپ میں موجود ہولی رومن ایمپائر کی ریاست بوہیمیا سے ہوا تھا۔ اس وقت سونے چاندی تانبے کے سکے ہوا کرتے تھے اور انکی قیمت انکے وزن کے حساب سے ہوتی تھی۔ اس دور میں بوہیمیا کی ریاست نے چاندی کا یہ سکہ جاری کیا جس کا نام ٹالر Thaler تھا جو بگڑ کر ڈچ اور انگلش میں ڈالر ہوا اور فرنچ سپینش اٹالین میں دالر( جو اصل مخرج کے قریب ترین تھا)؟
اس سکے کی کامیابی کی وجہ اس کا وزن اور قیمت تھی جس کی وجہ سے یہ بین الیورپی تجارت کا کامیاب ترین سکہ بن گیا۔ ڈالر بطور سکہ کامیاب کیوں ہوا ؟ اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ تب بڑی ریاستوں ، سپین، انگلستان فرانس اور سویڈن کے سکے بڑے تو تھے لیکن ریاستی کنٹرول تھا اور ان ریاستوں کی زیادہ تجارت ملک کے اندر ہی ہوتی تھی جبکہ ہولی رومن ایمپائر ایک ڈھیلا ڈھالا نیم وفاق تھا جس میں بے شمار ریاستیں اندرونی طور پہ آزاد تھیں اٹلی کا بھی یہی معاملہ تھا بے شمار ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور آج کا ہالینڈ تب لو لینڈز یا فلانڈرز تھا ان ریاستوں بشمول لکسمبرگ کی زیادہ تجارت ریاست سے باہر بین ال یورپی تھی تو یہ سکہ ان سب میں بہت کامیاب ہوا۔
دریں اثنا امریکہ دریافت ہوا تو امریکہ کی یورپ سے تجارت بہت بڑھ گئی اور یہ تجارت بھی ڈالر میں ہونا شروع ہوگئی تو امریکہ کی سپینش کالونیز کے گورنرز نے بھی سپینش پسیتہ کی بجائے ڈالر کے سائز کا سکہ ڈھالنا شروع کیا جو سپینش ڈالر کہلایا۔ تب ارجنٹائن میں چاندی کی پیداوار اتنی زیادہ تھی کہ ملک کا نام ہی ارجنٹینا رکھ دیا گیا جس کا مطلب چاندی تھا۔ یوں چاندی کا ڈالر عالمی کرنسی بن گیا اور امریکہ کی برطانوی نوآبادیوں نے بھی برٹش پاؤنڈ کی بجائے ڈالر کی کرنسی اختیار کی کیونکہ تجارت اسی کرنسی میں ہو رہی تھی۔
تب ہر ملک کا ڈالر اگرچہ الگ تھا لیکن وزن ایک ہی تھا۔
یہ اٹھارویں صدی تھی اگرچہ سپین اور برطانیہ کی سلطنت بہت پھیل چکی تھی لیکن دنیا بھر میں پھیلی انکی نوآبادیات برطانوی پاؤنڈ یا سپینش پسیتہ کی بجائے ڈالر کو ہی بطور کرنسی اختیار کرنے پہ مجبور تھیں کیونکہ یہی عالمی تجارت کی کرنسی تھی دریں اثنا یورپ میں ہولی رومن ایمپائر دم توڑ گئی اور اس کی جگہ آسٹرو ہنگیرین ایمپائر نے لی جس کی کرنسی فلورین تھی۔ یوں ڈالر کا اس کی جنم بھومی میں تو خاتمہ ہوگیا لیکن یہ دنیا بھر میں پھیلی مختلف نوآبادیوں کی کرنسی تھی جس میں آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ ، سنگاپور کے علاوہ افریقہ اور امریکہ کی نوآبادیات شامل تھین۔
۱۷۷۴ میں برطانیہ سے آزادی کے بعد امریکہ نے بھی ڈالر کو اپنی قومی کرنسی بنایا۔
اس طرح دنیا انیسویں صدی میں داخل ہوئی جس میں عالمی تجارت میں اہم تبدیلیاں ہوئیں۔ اور دنیا کا محور برطانیہ بنتا چلا گیا۔ نپولین کی شکست کے بعد برطانیہ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ رہی وہ پورے انڈیا کا مالک بنا بلکہ ایشیا و افریقہ میں اس کی نوآبادیات کا جال بچھ چکا تھا اب عالمی تجارت کا مرکز لندن بن گیا۔
دوسرے برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا تو برطانیہ ہی سارئ دنیا کی ورکشاپ بن گیا ساری دنیا برطانیہ سے تجارت پہ مجبور تھی۔ تب برطانوی پاؤنڈ سٹرلنگ عالمی تجارت کا سکہ بن گیا۔ ڈالر کو مزید دھچکا تب لگا جب بینک آف انگلینڈ نے دھاتی سکہ کی بجائے بینک نوٹ شائع کرنا شروع کردیا تو یہ تجارت کا آسان طریقہ تھا۔ یوں ڈالر کی بجائے پاؤنڈ کو اہمیت ملنا شروع ہوگئی۔ اسی دوران جب پیپر کرنسی ہر جگہ رائج ہوئی تو ہر ملک کے ڈالر کی قیمت الگ الگ ہوتی گئی۔ اس طرح ڈالر کی قیمتیں بھی مختلف ہوتی گئیں اور عالمی تجارت کی ترجیحی کرنسی بھی نہ رہا۔
ڈالر کو دوبارہ عروج دوسری جنگ عظیم کے بعد ملا جب برطانوی ایمپائر بھی ختم ہوگئی اور سونے چاندی کا ذخیرہ بھی لندن سے نیویارک منتقل ہوگیا تو بریٹن وڈ معائدہ کے بعد پاؤنڈ سٹرلنگ کی بجائے امریکی ڈالر پھر سے عالمی تجارت کی کرنسی بن گیا جو اب تک ہے۔