دوسروں کو اذیت دینا، انسان کا پسندیدہ مشغلہ : تحریر؛ محمد نعیم شہزاد

0
79

انسان کی تخلیق فطرت سلیم پر ہوئی ہے۔ اس کے والدین، دوست احباب اور ماحول اس کی طبع کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتا اور انسان زمانے کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیوں سے گزرتا ہوا کچھ مخصوص عادات اپنا لیتا ہے جس کو اس کی فطرت، نیچر یا طبیعت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ خوب معلوم رہے کہ اس طبیعت کا انحصار تین بنیادی مراکز پر ہے جو اس کے والدین، قریبی لوگ اور ماحول ہیں۔ ماحول میں آنے والی قدرتی و مصنوعی تبدیلیاں اس کو اثر انداز کرتی ہیں، والدین اور اقرباء کا عمل، ان کی گفتگو اور الفاظ اس کو متاثر کرتے ہیں اور انسان ایک خاص سانچے میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔

انسانی رویے انہیں تبدیلیوں کے زیر اثر وجود پاتے ہیں اور اسی سے متاثر ہو کر انسان صحیح اور غلط کے اپنے معیارات مقرر کرتا ہے۔ کن باتوں سے اسے راحت حاصل ہوتی ہے اور کون سی باتیں اس کے لیے رنجیدہ خاطر ہیں سب انہیں عوامل پر منحصر ہے۔

ان تینوں طبعی عوامل کے ساتھ ایک چوتھا عامل ابلیس، اس کی ذریت اور تلبیسات ہے۔ یہ ایک مضبوط محرک ہے جو انسان کے ہر جذبے، سوچ اور عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان اگر فطرت سلیم پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کو اپنے لیے حفاظتی حصار بنا لے تو یہ محرک اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا مگر بتقاضائے بشریت انسان بہت سے مقامات پر اپنی حفاظت سے غافل ہو کر اس دامِ پرفریب میں آ جاتا ہے اور پھر جو ابلیس چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے اور اس ساری تخریب کاری کا ذمہ دار تو بہرحال یہ انسان خود ہی قرار پاتا ہے۔

انہی تخریبی جذبات میں حسد، بغض و عناد اور آپس کی رنجشیں ہیں جو انسان کے دین اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ہی صورتحال کا تذکرہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ان الفاظ میں کیا:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌أَنَّهُ قَالَ: إِذَا فُتِحَتْ عَلَيْكُمْ (خَزَائِن) فَارِسُ وَالرُّومُ أَيُّ قَوْمٍ أَنْتُمْ؟ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: نَقُولُ كَمَا أَمَرَنَا اللهُ. قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : أَوَ غَيْرَ ذَلِكَ تَتَنَافَسُونَ ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ ثُمَّ تَنْطَلِقُونَ فِي مَسَاكِينِ الْمُهَاجِرِينَ فَتَجْعَلُونَ بَعْضَهُمْ عَلَى رِقَابِ بَعْضٍ

عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فارس اور روم کے(خزانے) تم پر کھول دیئے جائیں گے، تو اس وقت تم کس طرح کے بن جاؤ گے؟ عبدالرحمن بن عوف‌رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی بات کہیں گے جو اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیا ہے۔ (یعنی شکر کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ بھی، تم ایک دوسرے سے رشک کرو گے، پھر حسد کرنے لگو گے، پھر ایک دوسرے سےپیٹھ پھیرو گے، پھر آپس میں بغض رکھو گے، یا اسی طرح کچھ کرو گے، پھر تم مہاجرین کے گھروں کی طرف جاؤ گے اور انہیں ایک دوسرے کی گردنوں پر رکھو گے(ایک دوسرے کا حکم بناؤ گے)۔
(سلسلہ احادیث صحیحہ، حدیث :2035)

حسد، بغض اور عناد ایسے زہریلے عناصر ہیں جو معاشرتی زندگی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں اور انسان سکون قلب سے محروم ہو جاتا ہے مگر ابلیس اس کو یہ سارے حالات خوشنما کر کے دکھاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو عین حق پر جانتا ہے۔ انا پرستی کا بت انتہائی طاقتور ہو جاتا ہے اور انسانیت کا جذبہ معدوم ہو جاتا ہے۔ ایسے میں الہامی ہدایت ہی ہمارے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے اور عناد کے بحر ظلمات سے بھائی چارہ اور باہمی انس و محبت کے روشن جہان میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ .

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ ( یعنی ملاقات ترک نہ کرو ) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے ۔
(سنن ابی داؤد، حدیث: 4910)

مام ابن قیم رحمہ اللہ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں۔ تصوف اور سلوک کی صحیح اسلامی شکل کو انھوں نے اپنی تصانیف کے ذریعے واضح کیا۔ مدارج السّالكين میں وہ لکھتے ہیں :

‏طبعٌ مذموم، نسأل اللَّه العافية

قال الإمام ابن القيِّم – رحمه اللّٰه -:

كثيرٌ من النّاس لا يهنأ له عيشٌ في يومٍ
لا يؤذي فيه أحدًا من بني جنسه،

ويجد في نفسه تأذيًا بِحمل تلك السمّية
والشر الذي فيه، حتى يفرغهُ في غيره،

فيبرد عند ذلك أنينهُ، وتسْكن نفسَه.

مدارج السّالكين (٧٩/١)

بد طینت طبع، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے ہیں

امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

بہت سے لوگ اپنی زندگی کا ایک دن بھی اس حال میں نہیں گزارنا چاہتے
کہ وہ اپنے ہم جنس (کسی دوسرے انسان) کو تکلیف نہ دیں

وہ اپنے آپ کو تکلیف میں محسوس کرتے ہیں اس زہر سے جو ان کے اندر بھرا ہوا ہے
اور اس کا ضرر اٹھائے رکھتے ہیں حتی کہ اسے کسی اور کے جسم میں داخل کر دیں

پھر کہیں جا کر ان کا غضب ٹھنڈا ہوتا ہے اور ان کی روح کو تسکین ملتی ہے۔

مدارج السّالكين (جلد 1/صفحہ 79 )

کس احسن انداز میں انھوں نے انسان کے دو رویوں کو بیان کر دیا ہے۔ پہلا رویہ انسان کا دسرے انسانوں کے ساتھ اور دوسری طرف اس کی رب تعالیٰ سے لگائی گئی امیدیں۔ انسان کا اپنا تو یہ حال ہے کہ وہ خوامخواہ دوسروں کے لیے اپنے دل میں عناد بھرے رکھتا ہے اور ان کو اذیت دیے بغیر اطمینان نہیں پاتا۔ دوسروں کو ایذا دینے کو ہم اپنی تسکین کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلبگار ہیں۔ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے عیال کہا، ہم رنج پہنچائیں اور بدلے میں اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کریں۔ ہرگز نہیں بلکہ دنیا کے غموم و ھموم، وباؤں اور بیماریوں سے عافیت چاہتے ہیں تو اپنے قلب کی اصلاح کیجیے۔ دوسروں کو معاف کرنا سیکھیے اور اپنے دل کو وساوس سے پاک کر لیجیے۔ جب آپ کے دل میں دوسروں کے لیے عناد کی جگہ محبت ہو گی تو کائنات کا مالک بھی آپ کو عافیت عطا فرمائے گا۔

Leave a reply