مزید دیکھیں

مقبول

بھانجوں کے ہاتھوں ماموں قتل ،ایک ملزم گرفتار

لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں بھانجوں کے ہاتھوں...

لبنان: اسرائیلی ڈرون حملے میں جماعت اسلامی کے رہنما شہید

جنوبی لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملے میں جماعت اسلامی...

ہمیں تو بس اللہ سے ڈرنا تھا،تحریر:نور فاطمہ

زندگی میں انسان کو بہت ساری چیزوں...

اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب .تحریر: راحین راجپوت

پاکستان کے علاقے فیصل آباد کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سول سروس میں جانے کا فیصلہ کیا اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے ایک اچھے آفیسر کے طور پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کو منوایا ۔اسی دوران انہیں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل مینیجر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا ۔یہی وقت تھا جب ڈاکٹر امجد ثاقب کو غربت کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی غربت کے خاتمے کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم "اخوت” کی بنیاد رکھی اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔انہوں نے دس ہزار روپے کے معمولی سرمائے سے غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دینے کا آغاز کیا ۔آج ان کا ادارہ سود کے بغیر چھوٹے قرضے دینے والا دنیا کا ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے ۔اخوت تنظیم بلا سود قرضوں اور پیشہ وارانہ رہنمائی کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کر رہا ہے ۔”اخوت تنظیم” نادار اور ضرورت مند لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لئے بیس سے پچاس ہزار تک کے بلا سود قرضے فراہم کرتا ہے ۔یہ قرضے بغیر کسی لمبی چوڑی تفتیش کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک سادہ درخواست اور شخصی ضمانت کے ذریعے دیئے جاتے ہیں ۔گزشتہ کئی برسوں میں ” اخوت تنظیم” اربوں روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہے اور لاکھوں غریب خاندان مستفید ہو چکے ہیں ۔”اخوت تنظیم ” پاکستان کے صوبوں کے علاوہ فاٹا ، کشمیر اور گلگت بلتستان کے کئی علاقوں تک پھیل چکی ہے "اخوت تنظیم "کی طرف سے دیئے گئے قرضوں سے خواتین اور ملک کی اقلیتی برادریاں بھی مستفید ہوئی ہیں ۔” اخوت تنظیم” کا ادارہ کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے غریب لوگوں کی مدد کے لئے گرجا گھروں میں خصوصی فلاحی تقریبات کا اہتمام بھی کرتا ہے ۔”اخوت تنظیم” نے پاکستان کی قومی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے غریب لوگوں کی مدد کے لئے شروع کی جانے والی کئی سرکاری فلاحی سکیموں کی شفاف تکمیل کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے اپنی خدمات پیش کیں ۔اس فلاحی ادارے کو پاکستان کے مخیر حضرات بڑی تعداد میں سپورٹ کرتے ہیں ۔یہ فلاحی ادارہ کاروبار کرنے والے خواہش مند افراد کی مدد کرنے کے علاوہ گھر بنانے ، بچوں کی تعلیم اور شادی کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کے لئے قرضے فراہم کرتا ہے ۔

اس وقت ” اخوت تنظیم” کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب کی زیر نگرانی قرضوں کی فراہمی کے پروجیکٹ علاوہ متعدد فلاحی منصوبے بھی چلائے جا رہے ہیں ، جن میں اخوت کلاتھ بنک ، اخوت ہیلتھ سروسز ، اخوت ڈریمز پروجیکٹ ، اخوت ایجوکیشن اسسٹنس پروگرام اور اخوت فری یونیورسٹی شامل ہیں ۔اس کے علاوہ یہ ادارہ خواجہ سراؤں کی سرپرستی بھی کر رہا ہے ۔”اخوت تنظیم” کے ماڈل کو دنیا کے کئی ممالک اور کئی یونیورسٹیز میں سٹڈی کیا جاتا ہے ۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ” پاکستان کی مشکلات کا پائیدار حل غیر ملکی امداد سے ممکن نہیں ، ان کے بقول بھیک مانگنے والی اقوام کبھی ترقی نہیں کر سکتیں ۔ پاکستان کے اقتصادی حالات کی بہتری کے لئے پاکستانیوں کو ہی اٹھنا ہوگا ۔ غربت کے خاتمے کے لئے لوگوں کو سماجی آگاہی ، کپیسٹی بلڈنگ ، کاروباری تربیت اور دوسروں کی مدد کرنے والی رضاکارانہ سوچ سے مزین کرنا ہوگا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچاس فیصد پاکستانی بقیہ پچاس فیصد پاکستانیوں کی مدد کا مخلصانہ تہیہ کر لیں تو لوگوں کی مشکلات میں بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے ، کیونکہ ان کے تجربے کے مطابق پاکستان ایک دیانتدار قوم ہے اس لئے تو لاکھوں لوگ چھوٹے چھوٹے قرضوں سے اپنے کاروبار سیٹ کر کے ہمیں قرضے واپس کر رہے ہیں ، بلکہ ” اخوت تنظیم "کے ڈونر بن رہے ہیں ۔” ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ "اخوت تنظیم” کا ماڈل روائتی اقتصادی تصورات کے ذریعے سے نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ان کے بقول سودی قرضوں کی معیشت مسابقت ، منافع کے لالچ اور مارکیٹ فورسز کے تحت کام کرتی ہے ، جبکہ وہ ایثار و قربانی اور دوسروں کی مدد کر کے ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔”

ڈاکٹر امجد ثاقب کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی ملکی و غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا ہے جن میں ستارہ امتیاز ، پاکستان کا تیسرا اعلیٰ سول ایوارڈ اور ایشیا کے معروف اعزازات میں سے ایک ریمون میگ سائے سائے ایوارڈ شامل ہیں ۔ ریمون میگ سائے سائے ایوارڈ فلپائن کے سابق صدر رامون دلفیئرو میگ سائے سائے کی یاد میں بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد ایشیا میں کام کرنے والے ایسے لوگوں کی خدمات کو سراہنا جو دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے بے لوث انداز میں کام کرتے ہیں ۔ اس ایوارڈ کو عام طور پر ایشیا کا نوبل انعام بھی کہا جاتا ہے ۔ رامون میگ سائے سائے ایوارڈ دنیا کے معروف ترین اعزازات میں سے ایک ہے ۔ ماضی میں یہ ایوارڈ نو پاکستانیوں کو دیا جا چکا ہے جن میں عبد الستار ایدھی ، بلقیس بانو ایدھی اور عاصمہ جہانگیر بھی شامل ہیں ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی میں بے مثال اور بے لوث خدمات کے اعتراف میں "عشرے کا عالمی آدمی ” ( Global Man of dekad ) کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے لندن میں منعقدہ ( گلوبل ویمن ایوارڈ 2003 ء) کی تقریب میں ایوارڈ وصول کرنے کے بعد کہا کہ ” میں اس عالمی اعزاز کو حاصل کرنے پر بہت فخر محسوس کر رہا ہوں ۔ میرے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ مجھے یہ ایوارڈ بہت سے رہنماؤں ، مردوں اور عورتوں کی موجودگی میں مل رہا ہے جو اس دنیا کو تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ ” ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنا یہ ایوارڈ پاکستان کے عوام اور رضاکاروں کے نام وقف کیا جو دنیا کی بہتر تعمیر کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں ، ایک ایسی دنیا جو غربت اور استحصال سے پاک ہو ۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی رضاکارانہ خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ نے ( common wealth ‘s point of light ) سے نوازا ۔ اور ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے "Entrepreneur of the year 2018″ کے لئے مقرر ہوئے ۔ نوبل انعام 2022 ء کے لئے دنیا بھر سے 343 امیدواروں
کا انتخاب کیا گیا جن میں 251 انفرادی شخصیات اور 92 ادارے شامل ہیں ۔ ان ناموں میں ایک نام ڈاکٹر امجد ثاقب کا بھی ہے ۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام غربت کے خاتمے کے لئے کوشش اور انسانیت کی خدمت پر نوبل امن انعام کے لئے نامزد کیا گیا ہے ، جو پاکستان میں بلا سود قرضے فراہم کرنے کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلا رہے ہیں ۔ ان سب فلاحی کاموں کے علاوہ ڈاکٹر امجد ثاقب کئی کتابوں کے مصنف اور مقرر بھی ہیں ۔ ان کی تصانیف میں چار آدمی ، مولو موصلی ، اخوت کا سفر ، ایک یادگار مشاعرہ ، گوتم کے دیس میں ، غربت اور مائیکرو کریڈٹ ، اخوت دشت ظلمت میں ایک دیا ، سیلاب کی کہانی اور کامیاب لوگ شامل ہیں ، اور اس کے ساتھ ہی ان کے کالم بہت سے رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر امجد ثاقب کو کئی مرتبہ آکسفورڈ یونیورسٹی ، ہارورڈ یونیورسٹی اور اقوام متحدہ جیسے معتبر اداروں میں اظہار خیال کرنے کا موقع ملا ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ” چار آدمی ” کو جس خوبصورت انداز سے تحریر کیا گیا ہے ، وہ بہت منفرد اور ممتاز کرنے والا ہے ۔

” چار آدمی "کتاب کے بارے میں ڈاکٹر خورشید رضوی کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
” ڈاکٹر امجد ثاقب کی زندگی مسلسل انسانیت کے لئے وقف ہے ۔ غربت کا خاتمہ اور باصلاحیت مگر نادار طلباء کے لئے تعلیم ، اس کے بعد اخوت فاؤنڈیشن کی صورت میں گزشتہ بیس برس کے دوران جو کچھ کیا اس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جانا بہت فخر کی بات ہے ۔”
فاؤنٹین ہاؤس کے موجودہ سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر امجد ثاقب عید کا دن مسرت سے محروم مریضوں کے ساتھ گزارتے ہیں ، عید کی اس محفل میں انہیں وہ تین افراد ملے جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ، مگر ان کی درد مندی اور اخلاص کے نتیجے میں فاؤنٹین ہاؤس وجود میں آیا ۔سر گنگا رام ، ڈاکٹر رشید چوہدری اور جناب معراج خالد ، دیکھتے ہی دیکھتے موجود لوگوں کا مجمع منظر سے غائب ہو گیا اور ڈاکٹر امجد ثاقب ان تین رفتگان کی آپ بیتی سننے کے لئے بزمِ خیال میں بیٹھے رہ گئے ۔
یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے ، اس آپ بیتی سے عبارت ہے جو از حد دلچسپ اور دلنشین اسلوب میں قلمبند کی گئی ہے ۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کی اس کتاب کا شمار ان کی کامیاب تصانیف میں ہوتا ہے ۔ اور یہ کتاب سینکڑوں دلوں میں درد مندی ، خدمت خلق اور انسانیت کے چراغ روشن کرے گی ۔”
شکیل عادل زادہ کا اس کتاب کے بارے میں کہنا ہے کہ ۔۔۔” پڑھتے جاؤ پڑھتے جاؤ ، کہانی ختم ہو جائے ، تجسس و تاثر ختم نہیں ہوتا ۔ کچھ حاصل ہونے کی آسودگی سے تحریریں ممتاز ہوتی ہیں ۔ تحریریں آئینہ دکھاتی ہیں اور تحریریں نہاں خانے کے دھندلکوں میں اجالوں کا سبب بنتی ہیں ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی یہ کتاب امید جگانے ، کچھ کر گزرنے کے لئے اپنے قاری کو آمادہ کرتی ہے ۔ڈاکٹر امجد ثاقب کی ذات ہمہ پہلو ایک مثال ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے عزم و یقین ، نیت کی صداقت اور شفافیت کے بغیر ان کی تحریر میں یہ دلگیری و دلپزیری شائد ممکن نہ ہوتی ۔”

عطاء الحق کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کی نثر پڑھتے ہوئے مجھے کئی مقامات پر مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں کوئی خوبصورت انشائیہ پڑھ رہا ہوں ۔ سادہ ، سلیس ، پرمغز اور دل میں اتر جانے والی تحریر ! ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی خوبصورت تخلیقی نثر اللّٰہ تعالیٰ کی دین ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی دین ایسے ہی نہیں ہوتی ، اس کے پیچھے لاکھوں غریبوں کی "سفارش” موجود ہے ۔”
آخر میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ڈاکٹر امجد ثاقب کے عزم و ہمت کو یونہی قائم و دائم رکھے اور رزق قلم میں اور اضافہ فرمائے ۔ ( آمین ثم آمین )