ڈاکٹری پیشہ یا کاروبار.تحریر: راحیلہ عقیل

0
73

ہسپتالوں پر اکثر ہم بات کرتے ہیں لکھتے ہیں جہاں انسانیت کو روند کر زندگی اور موت کا کاروبار کیا جاتا ہے وہی ایک خاص توجہ آپ سب کی پرائیوٹ کلینک پر دلانا چاہوں گی بڑے ہسپتالوں سے مریضوں کو اپنے کلینک لےجانا تو معمول کی بات ہے جہاں ڈاکٹر بھاری فیس لےکر آپ سے گھنٹہ بھر آپکے مسائل سن لیتا ہے وہی خواتین کے ایسے بہت سے مسائل ہیں جو کھل کر بڑے ہسپتالوں میں جانے سے گریز کرتی ہیں بلکہ پرائیوٹ کلینک بھی ایسا ڈھونڈتی جہاں انکو کوئی جانتا نا ہو خاص کر ناجائز بچے کو گرانے کے لیے ایسے وقت پر اکثر لڑکیاں بے وقوف بن جاتی ہیں حال ہی میں نظروں سے گزرا وہ واقعہ سب کو یاد ہی ہوگا جہاں ایک چھوٹے کلینک میں ڈی این سی کے لیے جانے والی لڑکی اپنی جان گنوا بیٹھی ، گلی نکڑ پر ایسے بہت سے کلینک ہوتے ہیں جہاں نا تجربہ کار ایل ایچ وی، یا سرکاری ہسپتالوں کی ماسیاں اپنا کاروبار چلا رہی ہوتی ہیں بظاہر تو کلینک آپکو او پی ڈی لگتا ہے مگر اندر ایک پورا گینگ ہوتا ہے جو جائز ناجائز بچوں کو گرانے کی بھاری قیمت وصول کرتا ہے جس میں جان بھی جاےپر انکی زمہ داری نا ہوگئی ایسا نہیں کے علاقے کی پولیس کو ایسے معاملات کا علم نا ہو باقاعدہ بھتہ وصول کیا ہے کبھی شکایت درج بھی ہوجاے تب بھی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی علاقے کے بہت سے لوگ واقف ہوتے ہوئے بھی انجان بنے ہوتے ہیں پرائی بات میں دخل کیوں دیں یہ والی سوچ ہماری آج بھی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگئی، کون کرے کا ایسے جعلی ڈاکٹروں کا خاتمہ حکومت کب قانون میں اتنی سختی پیدا کرے گی کے ایسے درندے صفت لوگ ناجائز کام کرتے وقت سو بار سوچیں کب یہ کاروبار بند ہوگا ؟ اس کا جواب تو سب باخوبی جانتے ہیں یہ سلسلہ تو چلتا رہے گا ہمیں ہی اپنی نسلوں کو سدھارنے میں کردار ادا کرنا ہوگا

کالج میں پڑھنے والی لڑکیاں کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن کر ان کلینکس پر پہنچ جاتی ہیں نا گھر والوں کو خبر نا اپنی جان کی پرواہ عزتیں لٹوا کر عزتیں بجانے کی کوشش اکثر بہت بڑا نقصان کرجاتی ہے جسکا اندازہ کرنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا ایک انجان شخص کے ہاتھوں اپنی عزت دینا اور اس پر بھروسہ کرنا کے یہ ہمیں دھوکہ نہیں دیگا والدین بڑی امیدوں کے ساتھ اپنے بچوں کو ہاسٹل کالج بھیجتے کے ہمارے بچے پڑھائی کریں گے مگر اولاد زمانے کی رنگینیوں میں کھو کر اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیتی ہے نتیجہ یا تو وہ لڑکا زندگی برباد کرکے چھوڑ دیتا یا حمل گرانے کے دوران جان سے جاتی، خودکشی کرتی یا برادری والے ہی مار دیتے

لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کو اپنی حدود میں رہنا ہوگا باقی کرنے والے تو افسوس کرہی لیتے ہیں
یہ کہا تو جاتا ہے عورت کو برابری کے حقوق دو مگر عورت پر بھی لازم ہے وہ اپنی شرعی حدود میں رہ کر آگے بڑھیں میں عورت کی آزادی کے خلاف نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گی کے عورت کو اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے والدین کی دی ہوئی آزادی اصل میں آپ پر انکا بھروسہ ہوتا ہے جس کو اولاد تھوڑ کر خوش نہیں رہ سکتی، سوچیے ہم کہا کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a reply