جرمنی کی ڈاکٹر رتھ کیتھرینا نے پاکستانیوں کے لیے اپنا گھر بار کیوں چھوڑا ؟ دلچسپ کہانی پڑھنا نہ بھولیں
اسلام آباد : آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں طِب کے شعبے سے وابستہ پاکستان کی مدر ٹریسا، ڈاکٹر رتھ فاؤ کی دوسری برسی منائی جارہی ہے۔ڈاکٹر رتھ فاؤ کا شمار پاکستان کی ایک ایسی عظیم محسن کی صورت میں ہوتا ہے جن کی کاوشوں کی بدولت 1996ء میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کو جزام کے مرض پر قابو پالینے والے ممالک میں شامل کرلیا گیا تھا۔
ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ کی زندگی بھی اپنی تاریخ رکھتی ہے. مورخین کا کہنا ہے کہ ویسے تو جرمنی میں پیدا ہوئیں لیکن انہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو اپنے ملک واپس نہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر کوڑھیوں کی بستی میں فری کلینک کا آغاز کیا۔
کراچی سے ذرائع کے مطابو پاکستانی مدر ٹریسا کی طرف سے قائم کردہ ’میری ایڈیلیڈ ۔لیپرسی سینٹر‘ کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اس کے بعد اس مرض کے خاتمے کیلئے کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی کلینک قائم کیے گئے۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی اسپتالوں لیپرسی ٹریٹمنٹ سینٹر قائم کیے۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ کی پاکستانیوں سے محبت ، خدمت اور خلوص کو پیش نظر رکھتے ہوئے 1988ء میں پاکستان کی شہریت دی۔ ان کی گرا ں قدر خدمات پر حکومت پاکستان ، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر رُتھ فاؤ اپنی زندگی کے 56 برس پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل رہیں، انہیں پاکستان کی’مدر ٹریسا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لاکھوں مریضوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں