کرونا وائرس امریکیوں کےلیے ایک طرف زحمت تو دوسری طرف رحمت ،جرائم میں کمی ہوگئی 63 سال میں پہلی بارکوئی قتل نہیں‌ہوا

0
24

واشنگٹن :کرونا وائرس امریکیوں کےلیے ایک طرف زحمت تو دوسری طرف جرائم میں کمی ہوگئی ،اطلاعات کےمطابق دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کورونا وائرس کی وبا کے باعث جہاں دنیا کے کئی ممالک میں ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

وہیں کورونا وائرس کے باعث دنیا کی نصف آبادی کے گھروں تک محدود رہنے کی وجہ سے دنیا بھر میں جرائم اور مسائل میں بھی نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔تاہم ساتھ ہی کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کی وجہ سے گھریلو تشدد کی شکایات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، وہیں دنیا بھر میں بےروزگاری میں بھی اضافے ہوا ہے۔

اسی طرح دنیا کے کئی ممالک میں قتل، تشدد اور جنسی جرائم میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور ایسے ممالک میں امریکا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔حیران کن طور پر امریکا کی متعدد ریاستوں اور جرائم کے حوالے سے خطرناک شہروں میں شمار ہونے والے شہروں میں بھی جرائم میں نمایاں دیکھی جا رہی ہے۔ایسے شہروں میں امریکی ریاست فلوریڈا کا شہر میامی بھی شامل ہے، جہاں 63 سال میں پہلی بار 7 ہفتوں تک کوئی قتل نہیں ہوا۔

جی ہاں، فلوریڈا میں 63 سال بعد پہلی بار تقریبا 2 ماہ میں کسی قتل کی رپورٹ نہیں درج نہیں ہوئی۔امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے مطابق میامی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ 1957 کے بعد پہلی بار شہر میں کوئی بھی قتل نہیں ہوا۔

میامی پولیس کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں محدود رہنے کے باعث شہر میں قتل سمیت دیگر جرائم میں نمایاں دیکھی گئی ہے اور حیران کن طور پر میامی شہر کی 63 سالہ تاریخ میں پہلی بار 7 ہفتوں اور 6 دن تک کسی بھی قتل کی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔

پولیس کے مطابق اس سے قبل 1960 میں بھی میامی شہر میں 6 ہفتوں اور 5 دن تک کسی بھی قتل کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا اور اس سے قبل 1957 میں شہر میں 9 ہفتوں اور 3 دن تک قتل کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔

میامی میں 1957 کے بعد کوئی بھی ایسا دور نہیں گزرا جو 7 ہفتوں میں کسی شخص کو قتل نہ کیا گیا ہو، البتہ 1960 میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جو شہر میں 6 ہفتوں اور 5 دن تک کسی کو قتل نہیں کیا گیا تھا لیکن ساتویں ہفتے کے آغاز سے قبل ہی وہاں قتل کی واردات پیش آئی تھی۔

میامی پولیس کے مطابق اگرچہ شہر میں دیگر جرائم میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، تاہم پولیس کو شک ہے کہ شہر میں گھریلو تشدد اور بچوں کے استحصال میں کوئی کمی نہیں آئی ہوگی بلکہ عین ممکن ہے کہ اس میں اضافہ ہوا ہو لیکن ڈر کی وجہ سے ایسے جرائم کو رپورٹ نہ کیا جا رہا ہو۔سی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے سے نہ صرف میامی بلکہ ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور سمیت دیگر شہروں میں بھی جرائم میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

بالٹی مور پولیس کے مطابق شہر میں لاک ڈاؤن کے باعث ڈکیتیوں، راہ چلتے ہوئے افراد پر تشدد سمیت چھینا جھپٹی اور دوسروں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔بالٹی مور پولیس کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں 34 فیصد کمی ہوئی ہے۔

اسی طرح ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں بھی جرائم میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے، لاس اینجلس کا شمار امریکا کے بہت زیادہ جرائم والے شہروں میں ہوتا، تاہم وہاں بھی لاک ڈاؤن کے دوران قتل کی وارداتوں میں 21 فیصد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔

لاس اینجلس میں بھی راہ چلتے افراد کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے سمیت جنسی نوعیت کے جرائم میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ریاست الینوائے کے شہر شکاگو میں بھی یہی صورتحال ہے اور وہاں بھی لاک ڈاؤن کے دوران جرائم میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

شکاگو پولیس کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شہر بھر میں فائرنگ کے محض 19 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ اتنے ہی عرصے میں گزشتہ سال 45 تک فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور اس بار رپورٹ ہونے والے واقعات میں کسی بڑے نقصان کی اطلاعات بھی نہیں ملیں۔اسی طرح شکاگو میں بھی نہ صرف فائرنگ بلکہ تشدد اور ڈکیتیوں میں بھی نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ امریکا کی تمام 50 ہی ریاستوں میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مارچ کے آغاز سے جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے، تاہم وہاں کئی ریاستوں میں اب لوگ لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے مظاہرے بھی کر رہے ہیں۔

امریکا کورونا وائرس کے حوالے سے اس وقت دنیا کا سب بڑا متاثرہ ملک ہے جہاں 26 اپریل کی شام تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر ساڑھے 9 لاکھ تک جا پہنچی تھی جب کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 54 ہزار کے قریب ہو چکی تھی۔

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی کورونا وائرس با سے 26 اپریل کی شام تک دنیا بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 29 لاکھ سے زائد ہو چکی تھی جب کہ اس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 2 لاکھ 3 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔

Leave a reply