دنیا خطرات کے نرغے میں اور پاکستان و بھارت کا کردار، تحریر: انشال راؤ
آرزوئے سحر
دنیا خطرات کے نرغے میں اور پاکستان و بھارت کا کردار، تحریر: انشال راؤ
جنگ عظیم دوم میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے جس کی ہولناکی، تباہی و غیرمعمولی اثرات نے انسانیت کے وجود کے لیے ایک سنگین چیلنج کھڑا کردیا تھا، دنیا و انسانیت کو خطرات سے آگاہی کے پیش نظر 1947 میں اسٹیفن ہاکنگ سمیت پندرہ نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں نے ایک علامتی گھڑی تشکیل دی جسے Doomsday Clock کا نام دیا گیا اور اس کی سوئیاں مڈنائٹ سے 17 منٹ کے فاصلے پر سیٹ کیں، ان سائنسدانوں کے مطابق جب اس کا ٹائم مڈنائٹ یعنی رات کے 12 بجے پر آجائیگا تو دنیا کسی بھی لمحے تباہ ہوسکتی ہے، دنیا و انسانیت کے لیے جن خطرات کو شمار کیا گیا جن میں نیوکلیئر ہتھیار، بائیو ٹیررزم، سائبر کرائم، عالمی لیڈروں کی اشتعال انگیزی و جارحیت پسندی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو سرفہرست ہیں، اب تک متعدد بار ڈومس ڈے کلاک کے وقت میں تبدیلیاں کی جاچکی ہیں لیکن جوں ہی سائنس بلیٹن کے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اب دنیا محفوظ ہے تو فوراً گھڑی کی سوئیاں اپنے اصل وقت 17 منٹ کی دوری پر سیٹ کردی جاتی ہیں، دنیا میں تیزی سے رونما ہونیوالی ماحولیاتی تبدیلیوں اور ایٹمی جنگوں کے خطرات کو محسوس کرتے ہوے ایک بار پھر سائنس بلیٹن آف ایٹمک سائنس کے سائنسدانوں نے 23 جنوری کو گھڑی کے وقت میں تبدیلی کرتے ہوے جنوری 2018 میں دو منٹ کی دوری سے ہٹاکر اب اسے مڈنائٹ سے 100 سیکنڈ کی دوری پر سیٹ کردیا جو ابتک کی تاریخ میں مڈنائٹ سے کم ترین وقت ہے، ایٹمی سائنسدانوں نے بیان جاری کیا کہ "بین الاقوامی سلامتی کی صورتحال انتہائی سنگین ہے، جس کی وجہ جوہری جنگ کے بڑھتے ہوے خطرات، آب و ہوا کی تبدیلی، سائبر جنگ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی طاقتوں نے بین الاقوامی سیاسی انفراسٹرکچر کو ان کے نظم و نسق میں خاتمے کی اجازت دیدی ہے” بلیٹن آف ایٹمک سائنسٹسٹ کی تشویش محض سراب نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے جس طرح ڈرامائی انداز میں دنیا میں آب و ہوا کی تبدیلی رونما ہورہی ہے وہ انتہائی سنگین ہے 2019 میں ایمیزون کے جنگلات کی تباہی دنیا نے دیکھی اور اس کے بعد آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے ماحولیاتی اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے پہ مجبور کردیا، آئے روز کے زلزلے، پینے کے پانی کے ذخائر میں تیزی سے پیدا ہونے والی کمی، بے موسمی بارشیں، درجہ حرارت کی حیران کن تبدیلی نے دنیا میں زندگی کے وجود کے لیے شدید خطرات کو پیدا کردیا ہے، بہت سی عالمی تنظیمیں ان تبدیلیوں کا ذمہ دار انسانوں کی غیرفطری سرگرمیوں و معاشی ریس میں آگے بڑھنے کی حرص کو قرار دیا ہے، ایمیزون جنگلات میں لگنے والی آگ کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ برازیلین حکومت ان جنگلات کو ختم کرکے اس زمین کو زرعی و لائیو اسٹاک وغیرہ کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کو قرار دے رہی ہیں بالکل اسی طرح آسٹریلیا میں لگنے والی غیر یقینی آگ نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، اس کے علاوہ امریکہ چین کی طاقت کے حصول کی رسہ کشی اور اسی دوران چین میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی وبا اور جس طرح اس کی گونج عالمی میڈیا میں سنائی دی گئی جس کے بعد چین کی معیشت دھڑام سے نیچے گری ہے جو صرف چین تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر پڑینگے، چین دنیا کی معیشت کا 17 فیصد اور SARS Epidemic 2003 کے مطابق عالمی GDP کا 4.5 فیصد حصے دار ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی سپلائی چین کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن چند دنوں میں ہی چین کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے تقریباً دنیا نے چین سے لین دین میل جول کے حساب سے قطع تعلق کر رکھا ہے چین کی 80 فیصد سے زائد صنعتی پیداوار بند ہے، لوگ گھروں تک محصور ہیں ایک کروڑ کی آبادی کا شہر ووہان ہالی ووڈ مووی Resident Evil Apocalypse جیسا منظر پیش کر رہا ہے ہر طرف ویرانی اور سناٹا طاری ہے اور 90 فیصد سے زائد ایکسپورٹ ختم ہوکر رہ گئی ہے، اشیاء خورد و نوش کی شدید قلّت پیدا ہوگئی ہے جس سے ایک اور بڑے خطرے نے جنم لے لیا ہے کہ شاید کرونا وائرس تو اتنا مہلک ثابت نہ ہو جتنا لوگ بھوک سے مورجائیں گے، ماوزے تنگ کی چڑیوں کی نسل کشی کی پالیسی کے بعد پیدا ہونے والے قحط نے تقریباً ساڑھے چار کروڑ چینیوں کی زندگی چھینی تھی اور اب شاید ایک بار پھر چین کو ایک بڑے بلکہ بقا کا سوال ہے، چین کرونا وائرس کو بائیو ٹیررزم خیال کررہے ہیں جس کے باعث چینی انتظامیہ و ایک ایک فرد تڑپ کر رہ گیا ہے اور اب زخمی شیر کی طرح جوابی حملوں کے لیے بیتاب ہے، کچھ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ چین نے کرونا وائرس کیرئیر بناکر اسے لانچ کردیا ہے اور بالخصوص ان ممالک جنہوں نے چین سے ایواکویٹ کیا ہے انہیں نشانہ بنارہا ہے، بائیوٹیررزم کی اس غیرمرعی جنگ کا نہ کوئی آغاز ہے نہ اختتام لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ دنیا ختم ہوجائیگی جس پر 2017 سے بل گیٹس عالمی لیڈروں کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے آرہے ہیں، اس کے علاوہ بھارت پاکستان چین تنازعہ بھی شدت پر ہے اور ساتھ ہی دوسری طرف امریکہ چین اور مڈل ایسٹ پلان اپنی جگہ عالمی تباہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، بھارتی رہنماوں کی آئے روز کی اشتعال انگیز اور جارحانہ پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہندوتوا مائنڈسیٹ کی بھارتی سرکار کی شدت پسندی نے دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے پر کھڑا کر رکھا ہے جو کسی بھی وقت غیریقینی انداز میں شروع ہوسکتی ہے، چین کی معاشی و سفارتی تباہی سے اتنا فائدہ امریکہ کو نہیں جتنا کہ بھارت کو ہوا ہے اور یہ بہت دلچسپ ہے کہ بھارت نے چین کی جگہ لینے کے لیے بہت عرصہ پہلے سے اپنے پیر پھیلانا شروع کردئیے تھے، BIMSTEC کے زریعے جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ سے مشرق وسطیٰ اور یورپ و افریقہ تک اپنی مصنوعات کو پہنچانے کے لیے پر تول رہا تھا جو اب یقینی ہوتا نظر آرہا ہے کہ چین کی ایکسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے اس کی جگہ لے لے تو ساتھ ہی اپنی افرادی قوت سے فائدہ اٹھاتے ہوے چین کی پوزیشن پر آکر براجمان ہوجائے لیکن یہ آسان نہ ہوگا کیونکہ غیرمناسب و ناجائز طریقے سے ہتھیائی گئی پوزیشن بھارت ہضم نہیں کرپائیگا کیونکہ چین جس میں بھارت دلائی لامہ کو استعمال کرکے اور مختلف ہتھکنڈوں سے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے اب براہ راست چین کے نشانے پہ ہوگا اور مرتا ہوا چین یہ سب کیونکر برداشت کرسکتا ہے نتیجتاً بھارت چین بھیانک جنگ ہوسکتی ہے، جس طرح چین کی معیشت کے ٹھپ ہونے سے عالمی سطح پر منفی و مثبت اثرات ہورہے ہیں اور مستقبل میں اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ساتھ ساتھ مثبت اثرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کی پالیسی انتہائی متاثر کن ہے جس طرح پاکستان نے چین نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ اس مشکل وقت میں کھڑے ہیں یقیناً جیسے ہی چین بحران سے نکلے گا تو وہ اس احسان کو کبھی نہیں بھولے گا لیکن اندرونی خلفشار و سیاسی شعبدے بازیوں سے ملک و قوم غیرمعمولی نقصان کا سامنا کرسکتی ہے لہٰذا یہ وقت ہے کہ اب شاید تمام تر ذاتی مفادات پر ہمارے سارے سیاستدانوں کو چاہئے کہ ایک پیج پر آکر عالمی صورتحال کے پیش نظر استحکام کی طرف بڑھیں۔