‏عدت کیا ہے اور کیوں لازم ہے تحریر: علی رضا بخاری

0
66

شوہر کا انتقال ہونے کی صورت میں بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہوتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں”
(سورۃ البقرۃ : 234)

شوہر کے انتقال سے پہلے عورت حاملہ ہو يا کچھ دن بعد علم ہو تو عدت ڈیلیوری تک ہوگی خواہ یہ مدت 9 ماہ کی ہی کیوں نہ ہو۔

قرآن پاک میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور حمل والیوں کی عدت ان کا حمل ہے”
(سورۃ الطلاق : 4)

اگر عورت کو طلاق یا خلع ہوئی ہے تو اس صورت میں عدت تین ماہواری ہوگی۔

عدت کے مسائل:
عدت کی شروعات اس دن سے ہوگی جب شوہر کی وفات ہوئی ہے، اگر کسی بیوہ کو کچھ دن تاخیر سے شوہر کی وفات کی خبر ملتی ہے تو بھی عدت کی شروعات اسی دن سے مانی جائے گی جب وفات ہوئی ہو یعنی انجانے میں گزرے ایام بھی عدت میں شمار کیے جائیں گے۔

بیوہ کیلئے نبی پاکﷺ کا فرمان ہے:
"تم اپنے اس گھر میں عدت بسر کرو جہاں تمہیں اپنے خاوند کی موت کی خبر ملی تھی حتٰی کہ کتاب اللّٰہ کی بیان کی ہوئی مدت پوری ہو جائے”

دورانِ عدت سفر کرنا منع ہے اس لیے حج و عمرہ کا سفر ہو یا سیر و تفریح کا یہ سب بیوہ کیلئے دورانِ عدت ممنوع ہیں، بیوہ ضرورت کے تحت سفر کر سکتی ہے مثلاً شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو یا دوسرے کا گھر ہو تو مناسب جگہ منتقل ہو کر عدت گزار سکتی ہے، اسی طرح کوئی ضرورت کی چیز لا دینے والا نہ ہو تو خود باہر جا کر اشیاء خرید سکتی ہے اور اگر بیمار پڑ جائے تو علاج کی غرض سے بھی گھر سے باہر نکل سکتی ہے یعنی بیوہ کیلئے دورانِ عدت ضرورت کے تحت باہر جانا جائز ہے۔

بیوہ کو دورانِ عدت زینت کی چیزیں مثلاً میک اپ، کان کی بالیاں، پازیب، کنگن، ہار، انگوٹھی، چوڑیاں، کریم، پاؤڈر اور مہندی وغیرہ استعمال کرنا منع ہے۔

عورت عدت کے دوران گھر کی معمول کی زندگی گزارے گی اور آنے والے محرم رشتہ داروں سے ملاقات اور میل جول کر سکتی ہے۔

جب عورت کی عدت مکمل ہو جائے تو جہاں چاہے دوسرے دین دار مرد سے شادی کر سکتی ہے۔

‎@aliraza_rp

Leave a reply