نظام تعلیم اور والدین کا کردار تحریر: محمد جنید

0
69

‏پہلے وقتوں میں اگر کیسی بچے کا باپ ڈاکٹر ہوتا تھا توبچہ بھی ڈاکٹر ہی بنتا تھا، باپ اگر درزی ہوتا تو بیٹا بھی درزی ہی بنتا تھا، باپ اگر مستری ہوتا تو اس کا بیٹا بھی باپ کی طرح مستری ہی بنا کرتا تھا 

پھر وقت بدلا نظام تعلیم میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں لوگوں میں نئی سوچ پیدا ہونے لگی اور لوگ اپنے شعبے سے ہٹ سے اہنے بچوں کو تعلیم سیکھانے لگے 

آج کل کے بڑھتے ہوئے تعلیمی رجحان میں ہر ماں باپ یہ چاہتا ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، پائلٹ یا تو آرمی افسر بنیں۔ لہذا دوران تعلیم ان کو یہ بات باور کروا دی جاتی ہے کہ بیٹا تم ڈاکٹر بنو گے، تم انجینئر بنو گے یا تم پائلٹ بنو گے وغیرہ وغیرہ۔

 اس طرح بچوں بچے کے دماغ پہ دباؤ ڈال دیا جاتا ہے کے تم نے بس اس طرف جانا ہے اور یہ ہی کرنا ہے کیسی دوسرے شعبے بارے سوچنا بھی نہیں ہے، مطلب کے بچے کے دماغ کو ایک طرح سے بند کر دیا جاتا ہے کؤوں کے مینڈک کی طرح جو صرف اپنے والدین کے بتائے تعلیمی رستے پہ ہی چلتا ہے اور اپنے اصلاحات کو استعمال کرنے اور سوچے سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے

 جیسے ہی بچہ میٹرک کا امتحان پاس کرتا ہے تو اسے والدین کی مرضی سے ایف اس سی، آئی سی ایس یا ایف اے وغیرہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ اب اس سارے عمل کے دوران وہ بچہ جس نے اپنی زندگی گزارنی ہے یا جس نے اپنی دلچسپی کے مطابق اپنے شعبے کا انتخاب کرنا ہے اسے اس فیصلے میں شامل ہی نہیں کیا جاتا یا یوں سمجھ لیں کہ سیدھا اپنی مرضی سے داخل کروا دیا جاتا ہے۔ بچے کی رضامندی، اس کی دلچسپی اور ہم آہنگی کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال انٹر پاس کرنے کے بعد ہوتی ہے 

اور یہیں سے ہی بچوں کے روئیے میں بگاڑ شروع ہو جاتا ہے وہ چلتا تو النے والدین کے طریقے پہ ہی ہے تعلیم بھی حاصل کر رہا ہوتا ہے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ بچے کا اس تعلیم کے لئے ذہن ہی تیار نہیں ہوتا اور نا ہی وہ اس میں خوش ہوتا ہے

مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ میڈیکل یا انجینئرنگ کر چکا ہے پر اس کی دلچسپی اب میڈیکل یا سائنس کے شعبے میں نہیں تھی بلکہ وہ کیسی آرٹس سبجیکٹ میں ہے جیسے کہ انگلش کے شعبے میں دلچسپی رکھتا ہو اور اسے اپنے تعلیمی کیرئیر کے طور پر اپنانا چاہتا ہو یا کہ وہ وکیل بننے میں دلچسپی رکھتا ہو، اسے سیاست کا شوق ہو اور وہ اسے بطور مضمون پڑھنا چاہتا ہو، اسے اردو ادب سیکھنے کا شوق ہو یا اسلامی علوم کو سیکھنے کی طرف اس کا رجحان پیدا ہو گیا ہو یا بعض پچوں میں دور جدید میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ آئی ٹی اور مختلف ڈیجیٹل پروگرامز میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ اسے کاروبار کے طور پہ استعمال کرنا چاہتا ہے تو جب وہ اپنی تعلیم کے پس منظر کو دیکھے گا تو اس کا ان شعبوں سے کوئی تعلق نا ہو گا اور نا ہی معلومات اور والدین بھی بچوں کا سہارا بننے کے بجائے اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے سختی سے بتا دیتے ہیں اگر تم پڑھو گے تو صرف اسی فیلڈ میں جس کا ہم انتخاب کر چکے ہیں ورنہ نہیں. 

اکثریت والدین کی ایسی ہے جو چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ایسی فیلڈ کا انتخاب کرے جس کی موجودہ وقت میں بہت زیادہ اہمیت ہو چاہے بچے کی اس فیلڈ میں کوئی دلچسپی ہو یا نا ہو اگر کیسی فلیڈ کی اہمیت بنانی ہی ہے تو وہ خود ہی اس کی اہمیت بنا سکتا ہے جو اس میں شامل ہو گا

ایک اور بھی وجہ ہے کے پڑھنے والے بچے کی جس شعبے میں دلچسپی ہے وہ اس کا اپنے والدین کو بتا ہی نہیں پاتا اور ہچکچاہٹ کا شکار رہتا ہے کیونکہ بچے اور والدین کے درمیان اس طرح ہی بات ہی نہیں ہو پاتی ہمارے معاشرے میں اسے شرم و حیا کا نام دے دیا گیا ہے پر حقیقت اس کے برعکس ہے یہ بچوں کا ڈر ہوتا ہے جو بچوں کو والدین سے دور کر دیتا ہے ساتھ ہی بچوں کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے کیونکہ جس شعبے میں بچے کو اس کے والدین نے بھیجا ہوتا ہے وہ اسے سمجھ ہی نہیں پاتا اور نا خود کو اس کے لیے تیار کر پاتا ہے نتیجے کے طور پر اس کی ڈگریاں زیادہ اہمیت کی حامل ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ ان میں اچھے نمبر ہی حال نہیں کر پاتا.

اور جس فیلڈ میں بچے کی دلچسپی ہوتے ہے جیسے وہ پسند کرتا ہے اور اسی فیلڈ کو اپنانا چاہتا ہے اس کے لیے والدین ہی اجازت نہیں دے پاتے تو اس طرح سے بچہ کا مستقبل پوری طرح سے ختم ہو جاتا ہے وہ سمجھ ہی نہیں پاتا ہے اب آگے اسے کیا کرنا چاہیے

اس لئے اس سارے عمل کے دوران والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے سے مشورہ کریں ان سے پوچھیں کہ وہ کس شعبے میں دلچسپی رکھتا ہے، اس کا شوق کیا ہے؟ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنا، اس پر توجہ دینا والدین یا کسی اور شخص کا کام نہیں بلکہ محض اسی بچے کا کام ہے جس نے آگے بڑھ کر اس پیشے کو اپنانا ہے اور تعلیم حاصل کرنا ہے۔

‎@Durre_ki_jan

Leave a reply