تعلیم نظام تحریر:افشین

0
31

دور حاضر میں جدید ٹیکنالوجی  کے استعمال کے باعث  تعلیمی نظام میں بہت تبدیلی آئی ہے جیسا کہ اب نیٹ ورک تقریباً ہر جگہ میسر ہے۔ جدید آلات مثال کے طور پہ کمپیوٹر اور موبائل ، لیپ ٹاپ کی بدولت تعلیمی نظام میں جہاں آسانی آئی ہے وہاں کچھ منفی آثرات بھی منعقد ہوئے ہیں۔ نیٹ ورک کی سہولت سے ہم ہر طرح کی معلومات گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں ۔ پہلے پہل کتابیں پڑھی جاتی کچھ معلوماتی کتابیں بہت مشکل سے دستیاب ہوتی تھیں ۔اب جیسا کہ ہر طرف کرونا کی وباء عام  ہے اس سے بچاو کے باعث  بچے اور بڑے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ یہ ایک طرح کی سہولت ہے پر جس طرح کی تعلیم سکول اور کالج جا کے حاصل کی جاسکتی ہے ویسی گھر بیٹھے ہر شاگرد حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ بچوں کی مختلف ذہنیت ہوتی ہے ۔ کچھ دماغی طور پہ تیز اور کچھ کمزور ہوتے ہیں ۔ اساتذہ کرام کی بات کی جائے تو پہلے اساتذہ کرام بچوں پہ انتہائی محنت کرتے اب کچھ اساتذہ کرام نے بس اس کو پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے انکو بس اپنی تنخواہ سے غرض ہوتی ہے بچے پڑھے نہ پڑھے ۔ سرکاری سکولوں کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہاں اتنی پڑھائی نہیں کروائی جاتی کچھ ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو حاضری لگا کے گھر واپس آجاتے ہیں اور بچوں کی پڑھائی پہ کوئی توجہ نہیں دی جاتی سال کے اختتام پہ خود ہی پیپر کروا کے پاس کر دیا جاتا ہے ۔ 

پرائیوٹ سکولوں کے بچوں کی  فیس زیادہ اور اساتذہ کی کم ہے وہاں پڑھائی تو اچھی کروائی جاتی ہے مگر والدین کو صیحح لوٹنے کا کام بھی کیا جاتا ہے ۔اگر چھٹیاں دی جائیں مہینہ یا دو مہینہ اسکی فیس بھی بطور اڈوانس لی جاتی ہے ۔جیسا کہ کرونا کی وجہ سے سکول بند رہے مگر بہت سے سکولوں میں فیس لیتے رہے کم از کم فیس کم کردی جاتی کیونکہ اگر بچے گھر بیٹھے آن لائن کلاسز لگا رہے ہیں تو انٹرنیٹ کا خرچہ بھی تو اٹھا رہے ہیں ۔ تعلیم حاصل کرنا آسان بنایا جائے نہ کہ دشوار ۔گھر بیٹھے اساتذہ کو کمانا آسان لگ رہا ہوگا مگر کچھ سفید پوش لوگوں کا بھی خیال کیا جائے ۔ اتنے خرچے کیسے برداشت کریں ۔ 

گاوں میں ہر جگہ سکول بن چکے ہیں تعلیم دی جارہی ہے پر بچوں کی کاپیاں خالی ہوتی ہے یا پھر سوال اور  اسکا جواب اور لکھا ہوتا ہے ۔ کچھ اساتذہ مشق کی دہرائی کروا دیتے ہیں اور کہتے ہیں مشق گھر سے خود کر آنا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے آپ لوگوں کے پاس بچوں کو کیوں بھیجا جاتا ہے کیونکہ آپ پڑھائیں سب کام لکھوائیں ۔اگر ماں باپ بچوں کو ٹیوشن بھی بھیجتے ہیں تو بھی آپ اپنا کام پورا کروائیں ٹیوشن والوں کا کام جو سمجھ نہ آیا ہو وہ کروانا اور ٹیسٹ یاد کروانا ہے ۔یہ ایک عزت دار پیشہ ہے محنت سے کمائے رزق کو حلال کریں مفت خوری اچھی بات نہیں ۔بہت سے اساتذہ وہ سوالات چھوڑ دیتے ہیں جو انکو بھی نہ آتے ہو۔ بچوں کو کہہ دیا جاتا ہے خود کرلو نہیں آتا تو چھوڑ دو. پہلے کی تعلیم اور اب کی تعلیم میں بہت فرق ہے مگر پہلے اساتذہ اور اب کے کچھ اساتذہ میں بھی بہت فرق ہے ۔گاوں میں تعلیمی نظام پہ توجہ دی جائے ۔سرکاری سکولوں میں بس اساتذہ کی تنخواہیں ہی زیادہ نہ کی جائیں بلکہ یہ بھی دیکھا جائے وہ کروا کیا رہے ۔ یہ تلخ حقیقت ہے پر سچ یہی ہے ۔ پرائیوٹ سکولوں پہ دھیان دیں۔  ماں باپ کو کم لوٹا جائے ۔ سرکاری سکولوں میں پچاس ساٹھ ہزار تنخواہیں ہیں اور بچوں کو لکھنا بھی نہیں آتا ارود بھی اتنی کمزور ہوتی ہے انگلش پڑھنا تو دور کی بات ہے ۔ سمجھ نہیں آتی تنخواہیں اتنی زیادہ کیوں ہیں انکی ؟؟ اتنی تنخواہیں مزدور کی نہیں ہوتی جو سارا دن دھوپ میں کام کرتا ہے ۔ بیشک اساتذہ کرام پڑھانے میں دماغ  لگاتے ہیں پر کچھ یہ کام بھی نہیں کرتے مفت میں بس کھانے پینے کا کاروبار بنا ہوا ہے. جنکی تعلیم بھی کم ہوتی ہے وہ بھی اساتذہ بنے ہوئے ہیں کیا استاد بننا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ ہر کوئی استاد بن رہا ہے ۔ استاد بننا آسان نہیں ہے بہت محنت کی جاتی ہے تب روزی حلال ہوتی ہے پر افسوس معاشرہ سچائی کم سنتا ہے سچائی کی مخالفت زیادہ کرتا ہے ۔

#افشین 

@Hu__rt7

Leave a reply