عید الاضحی اور ہمارے رسم و رواج
تحریر:ضیاء الحق سرحدی، پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
عید الاضحی کا سنتے ہی ساری دنیا کے مسلمانوں کے ذہن میں سب سے پہلا لفظ جو آتا ہے وہ ہے "خوشی”—اور کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوار جس کا پورے اہتمام سے منانا ہم سب کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ اس خوشیوں بھرے دن کیلئے ہر گھر میں بڑھ چڑھ کر اہتمام کیا جاتا ہے اور اس اہتمام میں گھر کی صفائی، سجاوٹ اور سب سے بڑھ کر کپڑوں کی تیاری سرِفہرست ہے۔ اسی لیے اس دن ایک ناقابلِ بیان خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔

اس دن کسی بھی شخص کے ماتھے پر شکن کے آثار دکھائی نہیں دیتے بلکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہوتی ہے کہ دلوں میں پالنے والی کدورتوں اور رنجشوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے گلے لگ کر سارے گلے شکوے دور ہوتے ہیں۔ اس دن وہ خوشی نصیب ہوتی ہے جو کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی نہیں حاصل کی جا سکتی۔

ایک زمانہ تھا جب کسی کو عید کارڈ بذریعہ ڈاکیا موصول ہوتا تھا تو گھر والوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ چاہے بچے ہوں، بوڑھے یا عورتیں، سب کارڈ کو چھو کر دیکھتے تھے۔ یہ ایک سادہ سا عید کارڈ ہوتا تھا جس پر مسجد کے خوبصورت مینار ہوا کرتے تھے اور اُس کی اوٹ سے عید کا چاند مسکرا رہا ہوتا تھا، یا کوئی حسینہ گلاب کا پھول اپنے پھول جیسے گالوں کو لگا کر عید مبارک کہہ رہی ہوتی تھی۔

بڑے مزے مزے کے کارڈ ہوا کرتے تھے۔ عید کارڈز کے سٹالز سج جایا کرتے تھے۔ شاپنگ کرنے سے زیادہ عید کارڈ خرید کر خوشی ہوتی تھی۔ مگر اب تو سب کچھ موبائل میں سمٹ گیا ہے۔ کارڈ تو رہا ایک طرف، کارڈ پر عید کیک بھی بھجوا دیا جاتا ہے۔ البتہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی مہربانی کی کہ جو کارڈ 20 روپے میں مل جاتا تھا، وہ 10 پیسے کے خرچ پر موبائل کے ذریعے آپ کے کسی پیارے تک پہنچ جاتا ہے۔

اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ جائے اور پھر اسے پہنچاتا پھرے۔ بچوں کو عید سے ملنے والی خوشی میں اہم کردار بڑوں کی طرف سے ملنے والی "عیدی” کا بھی ہوتا ہے۔ نئے نئے نوٹوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی جیبوں کو بھر لینا ان کے لیے بہت طمانیت بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔

عیدی کی روایت اگرچہ آج بھی پہلے کی طرح قائم ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان ماضی کی طرح عید کے موقع پر نئے نوٹ بھی جاری کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے کہ عیدی میں نئے نوٹوں کی روایت کم ہوتی جا رہی ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک تو نئے نوٹ تک ہر آدمی کی رسائی نہیں ہوتی، پھر یہ کہ پہلے چھوٹی کرنسی کے نئے نوٹ عام تھے، جنہیں بچے حاصل کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔

لیکن اب ان کی قدر (ویلیو) اس قدر گھٹ چکی ہے کہ بچے بھی انہیں حاصل کرکے خوشی محسوس نہیں کرتے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سے وہ اپنی پسند کی چیزیں نہیں خرید سکیں گے۔ اس لیے وہ چھوٹی کرنسی کے نئے نوٹوں کے مقابلے میں بڑی کرنسی کے پرانے نوٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مویشی منڈیوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے چارے اور آرائشی اشیاء کے اسٹال سج گئے ہیں۔ مویشی منڈیوں میں شہریوں کی بڑی تعداد اپنے من پسند جانور کی تلاش میں مصروف دکھائی دے رہی ہے۔

پشاور، اسلام آباد، فیصل آباد، لاہور، ملتان، گجرات، سرگودھا، حیدرآباد، نوابشاہ، کراچی اور کوئٹہ سمیت ملک کے تمام شہروں میں لگنے والی منڈیوں میں مویشیوں کی آمد اور خرید و فروخت کا سلسلہ دن رات جاری ہے۔ بیوپاری اپنے مویشی ٹرکوں میں بھر کر مویشی منڈیوں کا رخ کر رہے ہیں۔

مویشی منڈیوں میں موجود اعلیٰ نسل کے بیل، بچھیا، بکرے، دنبے اور اونٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مویشی منڈی میں نئے قوانین نے بیوپاریوں کو دن میں تارے دکھا دیئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مویشیوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس کے باعث شہریوں کے لیے سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے اور اجتماعی قربانی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔

پاکستان میں عید الاضحی پر ایک اندازے کے مطابق 4 کھرب روپے سے زیادہ کے مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے، تقریباً 24 ارب روپے قصائی مزدوری کے طور پر کماتے ہیں۔ 4 ارب روپے سے زیادہ چارے کے کاروبار والے کماتے ہیں۔

پاکستان میں عید الاضحی ایک ایسا موقع ہوتا ہے کہ جس کے باعث پاکستان کو اور خاص طور پر حکومت کو بھی ڈھیر سارا فائدہ سمیٹنے کا موقع ملتا ہے۔ ویسے تو بیرون ملک سے ہونے والی ترسیلاتِ زر کے باعث حکومت کو ہر وقت فائدہ ملتا ہی رہتا ہے، تاہم عین عید الاضحی سے ایک ڈیڑھ یا دو ماہ قبل جو ترسیلات زر ہوتی ہیں، اس کا فائدہ سال بھر کے سیزن میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی ہر صورت اس عید کے موقع پر جانور کی قربانی کے لیے پاکستان اپنے گھرانوں میں پیسہ بھیجتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب آپ زرمبادلہ پاکستان بھیجیں گے، بے شک اس کا استعمال پاکستانی کرنسی میں آپ کا گھرانہ ہی کرے گا، تاہم بینکنگ اصطلاح میں اس کا فائدہ ملک کے خزانے کو ہی پہنچے گا۔

اسی طرح وہ لوگ جو خاص طور پر عید الاضحی کے لیے مہینوں پہلے سرمایہ کاری کرتے ہیں، ان کو بھی اس کا خوب فائدہ پہنچتا ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی کی گئی، جس میں 35 لاکھ گائے، بیل، 55 لاکھ دنبے و بکرے، اور 80 ہزار کے قریب اونٹ قربان کیے گئے۔

قربان کیے گئے جانوروں کی اوسط قیمت کے اعتبار سے پاکستان میں عید الاضحی کی معیشت اربوں روپے بنتی ہے۔ یہ محض جانوروں کے خرید و فروخت کے اعداد و شمار کا ایک اندازہ ہے، جبکہ چارے کا کاروبار، جانوروں کی نقل و حرکت، کھالوں کی خرید و فروخت اور دیگر کئی چھوٹی بڑی سرگرمیاں بھی اس عید سے منسلک ہیں۔

اس کے نتیجہ میں ہونے والے کاروبار کا اندازہ لگانا بہت دشوار ہے۔ یہ بھی تو دیکھئے کہ بڑی عید پر غیر ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد کو بھی روزگار ملتا ہے۔ ان میں مویشی پالنے والے، فروخت کرنے والے، ٹرانسپورٹرز، لوڈنگ کرنے والے اور قصاب بھی شامل ہیں جن کے لیے یہ تہوار روزگار کے مواقع لے کر آتا ہے۔

پاکستانی کاروبار کی دنیا میں سب سے بڑا کاروبار عید پر ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریبوں کو مزدوری ملتی ہے، کسانوں کا چارہ فروخت ہوتا ہے، دیہاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملتی ہے۔ اربوں روپے گاڑیوں اور ٹرکوں میں جانور لانے لے جانے والے کماتے ہیں۔

بعد ازاں غریبوں کو کھانے کے لیے مہنگا گوشت مفت میں ملتا ہے۔ کھالیں کئی سو ارب روپے میں فروخت ہوتی ہیں، چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو مزید کام ملتا ہے۔ یہ سب پیسہ جس جس نے کمایا ہے وہ اپنی ضروریات پر جب خرچ کرتے ہیں تو نہ جانے کتنے کھرب کا کاروبار دوبارہ ہوتا ہے۔

یہ قربانی غریب کو صرف گوشت نہیں کھلاتی، بلکہ آئندہ سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔

دوسری جانب ملک میں آن لائن مویشیوں کی خریداری کے رجحان میں بھی مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے قربانی کے جانور کی فروخت اور آن لائن قربانی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

روایتی طریقے میں مویشی منڈی کا رخ کر کے اپنی پسند کی گائے، بچھیا، بکرے، دنبے اور اونٹ کا انتخاب ایک مشکل عمل ہے، تاہم انٹرنیٹ نے اب یہ مشکل بھی آسان بنا دی ہے اور قربانی کا فریضہ ادا کرنے والے گھر بیٹھے ہی جانور خرید سکتے ہیں۔

شہری اپنے جانوروں کو خوبصورت بنانے کے لئے دیدہ زیب مورے، گلے کے پٹے، گھنگھرو، گھنٹیاں، ہار، مصنوعی پھول، چمڑے کی نکیل اور چارے کے لئے ہری گھاس، سوکھی گھاس، کٹی، لوسن، بھوسا، بھوسی، جنتر، چوکر دانہ، کھل، چنا اور دیگر اشیاء خرید رہے ہیں جن کی قیمتوں میں بھی پچھلے سال کی نسبت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس مہنگائی میں 50 سے 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن جانوروں کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے۔

Shares: