پہلےالیکشن کا مطالبہ تھا اوراب راہ فرار:آخرکیا مسئلہ ہے:عدالت

اسلام آباد: الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثرہورہے ہیں، سپریم کورٹ نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ "الیکشن الیکشن” کی رٹّ لگانےوالوں کواب کوئی خطرہ ہے؟جوالیکشن سےبھاگ رہے ہیں

سپریم کورٹ میں آئینی و سیاسی بحران ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران صدر پاکستان کے وکیل علی ظفرنے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 69 آگ کی دیوارہے، جسے عدالت پھلانگ کربھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جوہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی ‏اگراسے ہونےدیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں بظاہرعدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، جس پررولنگ آگئی ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ نے نئی روایت اورایک نیا رستہ کھول دیا۔

آئینی و سیاسی بحران از خود نوٹس یں صدرمملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفرنے دلائل دیے۔ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ سے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ زیرالتواء کیس میں پارلیمںٹ تبصرہ نہیں کرتیں توعدالت بھی پارلیمانی کارروئی میں مداخلت نہیں کرسکتیں ، عدالتی ڈائریکشن دائرہ اختیارسے تجاوز ہوگا اسپیکرکو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کوہدایات دینا ہوگا جوغیرآئینی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟ وکیل نے بتایاکہ باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے ، اسپیکرکی رولنگ کو ہاؤس ختم کرسکتا ہے، عدالت نے جائزہ لیا تو اسپیکرکا ہرفیصلہ عدالت میں آئے گا، پارلیمان کے ایسے فیصلہ جس کےاثرات باہرہوں توجائزہ لےسکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہرشہری آئین کا پابند ہے کیا اسپیکر پابند نہیں۔ چیف جسٹس نےآرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کا نقطہ اٹھایا۔

علی ظفرنے کہا کہ عدالت قراردے تحریک عدم اعتماد پارلیمانی کارروائی نہیں تو ہی جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس جمال نے پوچھا کہ ووٹ کم ہوں اوراسپیکرتحریک کی کامیابی کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟

وکیل نے بتایا کہ عدالت پارلیمنٹ پرمانیٹرنہیں بن سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔

(ن) لیگ وکیل سے پوچھیں گےعوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثرہورہے ہیں؟

چیف جسٹس نےکہاکہ یہ کیس ارٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوسپریم کورٹ مداخلت کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا آئین شکنی کوبھی پارلیمانی تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ دلیل کے مطابق پارلیمان کی اکثریت ایک طرف اوراسپیکرکی رولنگ ایک دوسری طرف ہے کیا صدرمملکت وزیراعظم سے اسمبلی تحلیل کرنےکی وجوہات پوچھ سکتے ہیں۔

علی ظفرنےبتایاکہ صدروزیراعظم کی سفارش کےپابند ہیں،وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آمر کبھی الیکشن کا اعلان نہیں کرتا۔ دلائل مکمل ہونے پراسپیکرکے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل کل دلائل کا آغاز کریں گے۔

 

Comments are closed.