ارطغرل پی ٹی وی نے یوٹیوب چینل پر ایک اور سنگ میل عبور کر لیا

0
28

ارطغرل پی ٹی وی ہوم پر روزانہ رات 8.00 بجے نشر ہورہا ہے،رات 12 بجے اور دن 12 بجے دوبارہ نشر ہوتا ہے. ارطغرل پی ٹی وی نے یوٹیوب چینل پر ایک اور سنگ میل عبور کر لی.ایک ہی مہینے میں 25 لاکھ سبسکرائبرزحا صل کرلیے.
ارطغرل غازی یوٹیوب چینل
یورپ، مڈل ایسٹ، افریقہ اور یورپ سے 700 ملین ناظرین کو اپنے سحر میں گرفتار کرنے والا ڈراما غازی ارطغرل آذربائیجان، ترکمانستان، قازقستان، ازبکستان، البانیہ، پولینڈ، سربیا، بوسنیا، ہزروگوینا، ہنگری اور یونان میں ریکارڈ توڑنے کے بعد اب پاکستان میں بھی یکم رمضان سے پی ٹی وی پر روزانہ رات آٹھ بجے پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ وہ ڈراما ہے جس نے ترکی کو ان پانچ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا جن سے امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے ملک بھی سیریل امپورٹ کر کے اپنے ہاں چلاتے ہیں۔ ارطغرل غازی نے جہاں ترکی کے زرمبادلہ میں بے پناہ اضافہ کیا وہیں اس ڈرامے نے امت مسلمہ کے خوابیدہ نوجوانوں کے سینوں میں عظمت گم گشتہ کو تلاشنے کا جذبہ بھی بیدار کیا۔ اسلامی دنیا کی عوام اس ڈرامے کو طیب اردگان کی طرف سے امت مسلمہ کو جگانے کی کوشش کے طور دیکھ کر اس خیر مقدم کر رہی ہے وہیں مغربی دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ یہ ڈراما مسلم نوجوان میں شدت پسند کو فروغ دے گا۔

دراصل مغربی دنیا کو غم اس بات کا ہے کہ وہ مسلم نوجوان جو عرصہ دراز سے سپائیڈر مین، بیٹ مین، آنٹ مین، ایکس مین، ٹارزن اور سپرمین جیسے جھوٹے کرداروں کے سحر میں گرفتار تھا وہ نوجوان یکایک غازی ارطغرل کے سحر میں گرفتار ہو گیا ہے۔ مغرب کو مسئلہ اس بات سے ہے کہ ان کا برسوں سے بنایا گیا بیانیہ اس ڈرامے نے ہفتوں میں تحلیل کر دیا ہے۔ اس ڈرامے نے مسلم دنیا پر بالخصوص یہ واضح کر دیا کہ مرد ڈاڑھی اور عورت مکمل لباس میں کتنی خوبصورت نظر آتی ہے۔

یہ وہ ڈراما ہے جس نے مسلمانوں کو ان کے حقیقی ہیروز سے متعارف کرایا ہے۔ یہ وہ ڈراما ہے جس کے بارے میں رجب طیب اردگان نے کہا ”جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے ان کے شکاری ہی ہیرو ٹھہریں گے“ اور ”ہم اسلامی تاریخ اس طرح لکھیں گے جس طرح وہ تھی“ اور جب یہ اسلامی تاریخ ارطغرل نامی ڈرامے کے ذریعے دنیا کی دکھائی تو لوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ یہ وہی ڈراما ہے جس نے اغیار کی ان کوششوں پر پانی پھیر دیا جو اسلام کے سنہری ماضی کو داغدار کرنے میں صرف کی گئی تھیں۔

یہ تو اغیار کا رویہ تھا اور ان کی تکلیف کی تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن مسلم ممالک کا رویہ بھی اس ڈرامے کے بارے میں بڑا عجیب ہے اور یہی بات مجھے ہی کیا ہر ذی فہم انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یہ صرف ڈراما ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے ورنہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اس کی نشر و اشاعت پر نہ تو پابندی لگاتے، نہ ہی وہ چالیس ( 40 ) ملین ڈالر کی لاگت سے اینٹی خلافت عثمانیہ ”ممالک النار“ نامی ڈراما بناتے اور نہ ہی ممالک النار کا ڈائریکٹر یاسر حراب لاس اینجلس ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے خلافت عثمانیہ کو مجرم کہتا۔

اگر غازی ارطغرل محض ڈراما ہی ہوتا تو مصر کی حکومت اپنی سرکاری فتوی کمیٹی سے اس ڈرامے پر پابندی کا فتوی کیوں جاری کراتی اور یہ کہتی کہ یہ ڈراما طیب اردگان کے خلافت عثمانیہ کا احیاء اور نشاۃ ثانیہ کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ تو ان کی باتیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ڈرامے نے وہاں کے نوجوانوں کے سینوں میں وہ تلاطم بپا کیا ہے جو کسی بھی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں نے بغاوت کی تو نہ صرف انہیں برطانیہ کی مکمل حمایت حاصل تھی بلکہ ”عرب مزاحمت“ کا پرچم بھی ایک برطانوی سفارت کار مارک سکائیز نے تیار کیا تھا۔

مصر میں عوام اس ڈرامے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایک من چلے نے وہاں کے شمالی شہر ”موسی المطروح“ میں ارطغرل کے نام پر ایک ہوٹل کھڑا کر دیا۔ نہ جانے وہاں کے ڈکٹیٹر کو اس ہوٹل سے کیا خطرہ ٹھہرا ہو گا کہ بزوربازو اس کا نام تبدیل کرا دیا گیا۔ بقول شخصے کچھ طاقتیں 2023 میں معاہدہ لوزان کے ختم ہونے سے خوفزدہ ہیں اور وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں غازی ارطغرل طیب اردگان کی شکل میں دوبارہ اسلامی دنیا کا پرچم بلندیوں پر نہ لہرا دے۔

بہرحال تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ڈراما اب بھی ان ممالک میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس ڈرامے نے دنیا کے ایک سو چھالیس ( 146 ) ممالک سے نہ صرف ناظرین کی توجہ حاصل کی بلکہ وہاں ڈراموں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بھی قرار پایا۔ آج کل دنیا میں سرمایہ ہی سب کچھ ہے اور محض دولت کمانے کی خاطر کوئی بھی ملک نہ صرف فلم بیچنے بلکہ خرید کر مقامی زبان میں ڈبنگ کر کے اسے اپنے سینما کی زینت بنانے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

ایسی دنیا میں ارطغرل ہی وہ واحد ڈراما ہے جسے دنیا کے کم و بیش ساٹھ ( 60 ) ممالک میں ڈب کر کے دکھایا گیا۔ ایک ایسا ڈراما جس کے پانچ سیزن ہوں اور ہر سیزن کم و بیش ستر اقساط پر مشتمل ہو اور پھر بھی انسان اسے دیکھے بلکہ دیکھتا ہی چلا جائے یہ ارطغرل کی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے اور وہ بھی ایک ایسے مصروف دور میں جب انسان کو سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ہے۔

اس ڈرامے میں کام کرنے والے اداکاروں کا پروفائل دیکھیں تو ان میں کوئی بھی ترکی کے ٹاپ ٹین میں بھی شمار نہیں ہوتا تھا لیکن آج وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور ہیں بلکہ مسلم نوجوانوں نے ارطغرل، حلیمہ سلطان، نورگل، بابر، سلیمان شاہ اور حائمہ خاتون وغیرہ کی ڈی پیز لگا لی ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان اور اس وقت کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے خود اداکاروں سے شوٹنگ والے مقام پر جا کر ملاقاتیں کیں۔ وینزویلا کے صدر نکولاس مدروس اپنی بیگم سمیت شوٹنگ سیٹ پر آ بیٹھا اور سر پر قائی قبیلے کی ٹوپی سجا کر ہاتھ میں تلوار تھام کر تصویر کھچوائی۔

چیچنیا میں اس ڈرامے کے لکھاری ”محمد بوزداغ“ کو دو روزہ دورے پر بلوایا گیا جہاں عوام نے سڑک کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر ان کا شاہانہ استقبال کیا۔ ایک ایک ڈراما نہیں بلکہ ایک ایسا مشروب ہے جس میں اطاعت الہی، محبت رسول، اسلامی تفاخر، ملی غیرت، دینی حمیت، عزت نفس اور فلاح انسانی جیسے کلیدی اجزائے ترکیبی شامل ہیں۔

اور آخر میں فقط اتنی گزارش ہے کہ اس ڈرامے کو خود بھی دیکھیں، فیملی کو بھی دکھائیں، دوستوں بھی بتائیں اور ہر گز اس پروپیگنڈے میں نہ آئیں کہ یہ ڈراما شدت پسندی کو بھارے گا اور یہ کہ ڈراما تو ایک آرٹ ہے اس میں مذہب کا کیا کام؟ اور اگر کوئی یہ کہے تو ان سے پوچھیں کہ کیا انڈیا اور ہالی وڈ کی کوئی فلم ہے جس میں مندر، بھگوان اور جیززکرائسٹ کا ذکر نہ ہو؟ اگر بالی وڈ کی فلموں میں مندر کے تقدس اور مورتیوں کی پوجا پاٹ اور ہالی وڈ کی فلموں مشکل وقت میں گھرے افراد کے منہ سے ”جیزز کرائسٹ“ کی بلند ہوتی صداؤں اور سینے پر بنتے صلیب کے نشان سے آرٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو نبی کریم ﷺ نام سن کر ترکوں کا تعظیما اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر ادب سے جھک جانا آرٹ کو کیسے نقصان پہنچا سکتا ہے؟

Leave a reply