اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن اور حکومت، کیا کوئی اچھی خبر ہے؟ سنئے مبشر لقمان کی زبانی

0
25

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ملک انتہائی نازک دور سے گزر سے رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر محاذ آرائی سامنا ہے ۔ بھارت پاکستان میں proxies کو ہوا دے رہا ہے ۔ تو افغانستان میں سے امریکہ نکل کر جا رہا ہے جس کے بعد کی منظر کشی دیکھائی نہیں دے رہی ۔ کہ وہاں اب کس کی حکومت ہوگی یا نہیں ہوگی یا خانہ جنگی ہوگی ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ معیشت کی حالت کافی پیچیدہ چل رہی ہے ۔ ملک کے اندرونی حالات دیکھیں تو مہنگائی اور بے روزگاری کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے ۔ اوپر سے وباء نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کر دیا مگر حکومت اور عوام دونوں ہی ٹھنڈ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس تمام صورتحال میں ملکی کے اندرونی سیاسی حالات میں کچھ اچھے نہیں چل رہے ہیں ۔ الزامات ، سازشیں اور سیاسی چالیں بھی پاکستان کو کسی صورت کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہیں ۔ ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں عمران خان نے آگے بڑھ کر اپوزیشن کو آفر کراوئی کہ آئیے مل کر بیٹھتے ہیں ۔ الیکشن اصلاحات سے لے کر تمام معاملات پر بات چیت کرلیتے ہیں ۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کا بات چیت کا کوئی موڈ نہیں ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد سلیکٹڈ وزیراعظم الیکشن اصلاحات کے نام پر دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان سے کسی بھی معاملات پر مذاکرات بے کار ہیں۔ آپ سے بات نہیں ہوگی۔ تو ن لیگ کے خواجہ آصف تو کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں انکا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال میں حالات پانچ گنا زیادہ بگڑ چکے ہیں۔ نئے الیکشن کرائے جائیں۔ نیا مینڈیٹ بنایا جائے۔ قومی یا عبوری حکومت قبول نہیں۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی حکومت بنے تو بھی تین یا چھ ماہ کے اندر نئے الیکشن کرائے جائیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے تجزیہ کار اور صحافی جو یہ دعوے کر رہے تھے کہ اپوزیشن کا بیانیہ اب بدل گیا ہے ۔ خاص کر ن لیگ کا سوفٹ ویئر تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ جی بی الیکشن کے بعد اپوزیشن اب ٹھنڈی پڑ جائے گی ۔ پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر جائے گی ۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ۔ یا اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو کامیاب نہیں ہوئی ۔ کیونکہ مریم اور مولانا کے حالیہ بیانات سے تو لگتا ہے کہ یہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ فرنٹ فٹ ہر کھیل رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی حکومت کے درد سر میں اضافہ ہی کریں گے ۔ مریم نے تو مانسہرہ جلسہ میں ایک بار پھر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ اگرچہ اس جلسے میں کسی اہم عہدے پر فائز شخصیت کا نام نہیں لیا گیا ۔ مگر اشارے جس جانب تھے لوگ باآسانی سمجھ گئے ہیں ۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مریم نے کہا کہ ووٹ چوری کرکے اقتدار میں آنے والوں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔ ڈھائی سال پہلے کیے گئے وعدوں پر سوال کریں تو جواب ملتا ہے کہ ہمارے پاس الہ ٰ دین کا چراغ نہیں ہے۔ اس وقت مریم نواز بڑے ایک پلانڈ طریقے سے گلگت بلتستان الیکشن کو متنازعہ کرنے پر تلی بیٹھی ہیں ۔ کل پھر انھوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے باوجود ‘’سلیکٹڈ’’ نہیں جیت سکا۔ صرف 8 سیٹیں ملیں جو مسلم لیگ ن کے توڑے امیدواروں کی مرہون منت ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اصل میں جو بات مریم عوام اور لوگوں کو یہ بات نہیں بتا رہی ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام نے ووٹ کو عزت دے کر نواز شریف کا فوج مخالف بیانیہ مسترد کر دیا۔ مریم نواز نے رنگ رنگ کی ٹوپیاں پہن کر ووٹ کو عزت دلوانے کی کوشش کی مگر گلگت بلتستان کے عوام بڑے سمجھدار نکلے ۔مثال میں آپکو دے دیتا ہوں ۔ آپ پورے پاکستان میں الیکشن کرا کے دیکھ لیں فوج مخالف بیانیہ مسلم لیگ کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ آپ نواز شریف کی خواہشیں چیک کریں کہ کے بقول انہیں تین مرتبہ وزارت اعظمی سے نکالنا خلاف آیئن تھا لیکن عمران خان کو نکال باہر کرو ؟اسٹبلشمنٹ کو یہ کہنا کہ حکومت گرا دے کیا یہ جمہوریت ہے یا آئین ہے ؟

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے جیسے فوج سے ڈیل کرنے کے تمام دروازے کھڑکیاں بند ہوتی جارہی ہیں تو بیان بھی بدل رہا ہے کہ ہم فوج کے خلاف نہیں چند جرنیلوں کے خلاف ہیں۔ نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کے صدقے مسلم لیگ کے نام پر بڑی شہرت، پیسہ اور پاور کما لی تھی اچھا ہوتا عزت سے بڑھاپا گزارتے مگر الطاف حسین بن کر سب کچھ گنوا دیا ہے ۔ دراصل یہاں کوئی لیڈر کہلانے کے لائق نہیں کوئی قیادت ایماندار نہیں لیکن ووٹ کی عزت کا بڑا خیال ہے؟

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ سچ تو یہ ہے کہ اس قوم نے بھی کبھی بندے کا پتر مانگا ہی نہیں۔ جس نے پیچھے لگا لیا آنکھیں بند کرکے لگ گئے۔ سیاسی قیادت کے کھمبے بنا لئے اور ان کی پوجا کرنے لگے۔عوام کو کم عقلی کی سزا مل رہی ہے۔ سیاستدانوں اور آمروں کے جھوٹ اتنے سچے ہوتے ہیں کہ عوام باآسانی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ پاکستان نے کبھی حقیقی جمہوریت دیکھی ہی نہیں۔ کبھی سول آمریت اور کبھی فوجی آمریت رائج رہی۔ دو کنگز پارٹی اور ون مین شو کی باریاں لگتی رہیں ہیں ۔ سب نے خوب کھایا ، بنایا، لوٹا اور باہر بھاگ گئے۔ حکمرانی کے لئے واپس آتے ہیں پھر موٹے تازے جھوٹ بولتے ہیں ۔ عوام کو بیوقوف بناتے ہیں ، چند سال پھر عیش کرتے ہیں پھر باہر لوٹ جاتے ہیں۔ اولاد باہر، علاج باہر، مال و دولت جائیدادیں باہر لیکن اقتدار اندر۔ اور جب جیل کے اندر جانے کی بات آئے تو سب ادارے غلط بس یہ لوگ سچے اور صاف ستھرے پاک صاف ؟مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوٹے بھرتی کریں تو جائز مگر کوئی انکو چھوڑ جائے تو لوٹا ؟ یہ اگر مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹیں تو جائز۔ اگر یہ خود گھسیٹے جائیں تو سازش ؟ یہ اگر زرداری سے ہاتھ ملائیں تو جائز ۔۔کوئی اور ملائے تو منافق ؟ یہ الیکشن جیتیں تو شفاف ۔ کوئی اور جیتے تو غیر شفاف ۔۔۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں صورتحال ہی کچھ عجیب و غریب ہے محض درجن بھر خاندانوں کا پاکستان کی 98 فیصد عوام پر مسلسل 70 سالوں سے راج کرتے آنا اور عوام کا پھر انہیں ووٹ ڈالنا بھی حیرت انگیز ہے یا تو عوام اس ماحول کی عادی ہوچکی ہے یا ووٹ ڈالے کہیں اور۔۔۔ گنے کہیں اور جاتے ہیں ۔ اگر سچ پوچھیں تو پاکستان میں جمہوریت دور دور تک نظر نہیں آتی جیسا کہ جمہوریت کی تعریف ہے عوام کی حکومت عوام کے لئے عوام کے ذریعے لیکن یہاں ایک وڈیرہ سرمایہ دار جاگیردار جاتا ہے تو دوسرا مسلط ہو جاتا ہے۔ اب یہ سب یونہی چلتا رہا تو آنے والا کل مزید خوفناک ہوگا۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جو بھی حالت ہے سو ہے مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت بھی کوئی win win position میں نہیں ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ایک طاقتور وزیراعظم تو نظر آرہے ہیں۔ ریاستی ادارے بھی یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ ہیں مگر حال ہی میں خلاف توقع ہونے والا ظہرانہ اس طرف اشارہ تھا کہ سب اچھا نہیں ہے۔ اتحادیوں کے تیور ٹھیک نہیں لگ رہے گو کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں مگر کسی اصول پر نہیں۔ کسی کے کہنے پر۔ اس حکومت کا بھی یہ مسئلہ رہا ہے کہ یہ اپنے ووٹر اور عوام کو خوش کرنا تو دور کی بات اپنے اتحادیوں کو بھی ساتھ نہیں لے کر چل پا رہے ہیں ۔ بعض دفعہ تو حیرانگی ہوتی ہے ۔ کہ کیا کوئی وزیر مشیر کے عہدے پر براجمان بندہ اتنا نااہل بھی ہوسکتا ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ بہتر یہ ہی ہے کہ وزیراعظم مسائل کو پارلیمنٹ میں لے جائیں اور پارلیمانی طریقے سے مذاکرات کا آغاز کریں ۔ اور اردگرد سے نااہل اور نکمے لوگوں کو ہٹائیں ۔ کیونکہ لوگ انگلی ان پر نہیں بلکہ اب عمران خان پر اٹھنا شروع ہو گی ہے ۔ پی ٹی آئی میں بہت ہی sober سیاست کی سمجھ بوجھ والے اور قابل لوگ بھی ہیں ۔ جن کو موقع ملا تو یقیقناً پی ٹی آئی کے امیج کو بہتر ہی کریں گے ۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن کسی طرف سے خیرکی کوئی خبر نہیں آر ہی ہے ۔
ان covid times میں حکومت اور اپوزیشن کا سب سے بڑا امتحان تو عوام کی جان کا تحفظ ہے ۔ مگر لگتا ہے کہ دونوں کو صرف
اپنی سیاست اپنی حکومت اپنی باری کی فکر ہے عوام چاہیئے جائیں بھاڑ میں ۔۔۔ کیونکہ حکومت سب کچھ بند کرنا چاہ رہی ہے ۔ مگر سکول نہیں بند کر رہی ۔ کیونکہ ان کے بچے کون سے پاکستانی پرائیوٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ وہ تو رہتے ہی باہر ہیں پڑھتے ہی باہر ہیں ۔ اوپر سے یہ پرائیوٹ سکولز کا مافیا اس ملک میں اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ حکومت ۔ وزیر ۔ مشیر اور بیوروکریٹس یا تو انکے اتحادی ہیں یا پھر یہ ان کے سامنے بے بس ہیں ۔ دوسرے جانب اپوزیشن بھی جلسے جلوس کرنے پر بضد ہے۔ کیونکہ انکو اپنی باری کی فکر ہے ۔ ڈھائی سال گزر گئے ہیں بغیر کرسی کے ۔۔۔ یاد تو ستائے گی اب ۔۔۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پی ڈی ایم کے ترجمان میاں افتخار حسین تو کہتے ہیں کہ 22 نومبر کو پشاور جلسہ ہر صورت ہوگا۔ تمام تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ حکومت جلسے کو ناکام بنانے کے لئے لاکھ کوششیں کرے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑیگا۔ دوسری طرف لاہور کے جلسے کے حوالے سے بھی ن لیگ کا یہ ہی موقف ہے ۔ کہ کورونا ۔۔۔ ورونا کچھ نہیں ۔۔۔ تحریک یونہی چلتی رہے گی ۔ عوام چاہے مر جائیں ۔۔۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ آخر میں پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان اگر اپنے پارٹی منشور کے مطابق سسٹم کی اصلاح کیلئے جو آئینی ترامیم لانا چاہتے ہیں انکی دوتہائی اکثریت کے ساتھ منظوری کی خاطر انہیں اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کرکے اسکے ساتھ معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا۔ اگر ہماری سیاست میں تحمل اور برداشت کا کلچر حاوی ہو جائے تو مطلوبہ قوانین منظور کرانے میں بھی کوئی دقت نہیں رہے گی اور انتخابی نتائج کو قبول کرنے کی روایت کا بھی آغاز ہو جائیگا۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس معاملہ میں پیش رفت کرینگے تو ایک مدبر قومی قائد کی حیثیت سے انکی نیک نامی میں مزید اضافہ ہوگا۔ آج پوائنٹ سکورنگ کی سیاست سے زیادہ افہام و تفہیم کی سیاست کی ضرورت ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام بھی پیدا ہوگا ۔ پارلیمنٹ کی افادیت میں اضافہ ہوگا اور ملک میں مہذب معاشروں والی جمہوریت کی جانب اہم قدم ہوگا ۔

Leave a reply