12-اکتوبر، فیصل مسجد کی بنیاد شاہ خالدبن عبدالعزیز نے رکھی

0
31

اسلام آباد : سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات بہت دیرینہ ہیں، اور اگر یہ کہا جائے کہ اس خطے کے مسلمانوں کے تعلقات سعودی عرب سے اتنے پرانے ہیں جتنے پرانے مسلمان اس خطے میں ہیں ، ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ، پاکستان نے مکہ اور مدینہ کی وجہ سے اس سرزمین مقدس کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ پیش بھی کیا اور قربان بھی کیا ،

جہاں تک تعلق ہے اسلام آباد میں‌ فیصل مسجد کی بنیاد کا تو وہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ، تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتا چلتا ہےکہ 1959ء میں جب اسلام آباد کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو ان منصوبہ سازوں کے ذہن میں ایک ایسی مسجد کا خاکہ بھی تھا، جو پرشکوہ بھی ہو، پر جمال بھی ہو اور اس جدید ترین شہر کی شناخت اور پہچان بھی ہو۔ اسلام آباد کا شہر آہستہ آہستہ بستا رہا اور جب 1966ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انہوں نے اس مسجد کے تمام تر اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا۔

جناب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نسل پرستی کے سخت خلاف تھے،عیسائی مفکر

1968ء میں حکومت پاکستان نے اس مسجد کے ڈیزائن کے لئے ایک بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام کیا۔ یہ مقابلہ ترکی کے جواں سال آرکٹیکٹ ویدت دلو کے نے جیتا۔ مارچ 1975ء میں جب شاہ فیصل شہید کردیئے گئے تو حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد ان کے نام سے معنون کردی جائے۔ چنانچہ 28 نومبر 1975ء کو حکومت نے اس مسجد کا نام ’’شاہ فیصل مسجد‘‘ رکھنے کا اعلان کردیا۔

اکتوبر 1976ء میں جب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خالد پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو حکومت پاکستان نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کے نام سے معنون اس عظیم مسجد کا سنگ بنیاد نصب فرمائیں۔ چنانچہ 12 اکتوبر 1976ء مطابق 17 شوال 1396ھ کو شاہ خالد نے ایک باوقار تقریب میں اس عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔سنگ بنیاد کے موقع پر بڑی تعداد میں پاکستانی اور سعودی علماء بھی تشریف فرما تھے

سسکتی وادی کشمیر کا واحد مسیحا پاکستان ہے‘ ڈاکٹر سید مجاہد گیلانی

فیصل مسجد کے مرکزی ہال کا رقبہ 51 ہزار 984 فٹ مربع فٹ ہے مرکزی ہال کے چاروں طرف چار مینار ہیں جن میں سے ہر ایک کی بلندی 286 فٹ ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال ایک خیمے کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی اونچائی اندرونی جانب سے 134 فٹ اور بیرونی جانب سے 150 فٹ ہے۔ اس مرکزی ہال میں پاکستان کے دو ممتاز مصوروں صادقین اور گل جی نے بھی آیات ربانی کی خطاطی کا شرف حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ہال کے اوپر نصب کئے جانے والے طلائی ہلال کی تنصیب کا کام بھی گل جی نے انجام دیا تھا۔

اوپی ڈیز بند، مریض رُل گئے،مریضوں کوحق نہ دینے والے کس منہ سے حق مانگتے ہیں‌

یہ مسجد 10 سال کی شب و روز تعمیر کی بعد 2 جون 1986ء مطابق 23 رمضان المبارک 1406ھ کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یوں وہ خواب جو شاہ فیصل نے 1966ء میں دیکھا تھا، دو دہائیوں کے بعد حقیقت کا روپ دھار گیا۔آج بھی یہ مسجد نہ صرف پاکستان کی خوبصورت اور انوکھی مسجد ہے بلکہ اس کا دنیا کی ان چند مساجد میں شمار ہوتا ہے جو خوبصورتی ، شان اور آن کی وجہ سے مشہور ہیں

Leave a reply