مقام فیض کوئی راہ میں جچاہی نہیں:جوکوئےیارسے نکلےتوسوئےدارچلے:فیض احمد فیض ایک شاعر،ایک تاریخ

0
36

فیض احمد فیض

اردو کےایک عظیم انقلابی شاعرفیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوکالا قادر،ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک اورانٹرمیڈیٹ سیالکوٹ میں پاس کیا۔ بعد ازاں لاہور میں ایم اے (انگریزی) اور ایم اے (عربی)کےامتحانات پاس کیے۔ تعلیم سےفارغ ہونےکےبعد درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔دوسری جنگ عظیم کےدوران فوج کےمحکمۂ نشرواشاعت سےمنسلک رہے۔جب لاہورسے’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور’’امروز‘‘ جاری ہوئے تو آپ ا ن کےایڈیٹرمقرر ہوئے۔

عبداللہ ہارون کالج، کراچی کے پرنسپل اور نیشنل کونسل آف آرٹس کے صدر بھی رہے۔ فیض راول پنڈی سازش کیس میں ۱۹۵۱ء میں پاکستان سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔ وہ چار سال تک سرگودھا، منٹگمری، کراچی اور لاہور کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔۱۹۵۵ء میں قید سے رہا ہوئے۔ دسمبر۱۹۵۸ء میں دوسری بار گرفتار ہوئے اور اپریل ۱۹۵۹ء میں قید سے رہائی ملی۔ فیض کو شعر وشاعری سے لگاؤ اوائل عمر سے تھا۔ کسی سے اصلاح نہیں لی۔ادب کے لینن پرائز سے آپ کو نوازا گیا۔ فیض نے اردو غزل کو ایک نیا لہجہ دے کر اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ وہ 20نومبر 1984 کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

’’نقشِ فریادی‘‘، ’’دستِ صبا‘‘، ’’زنداں نامہ‘‘، ’’دستِ تہہ سنگ‘‘، ’’شام شہرِ یاراں‘‘، ’’متاعِ لوح وقلم‘‘، ’’سروادئ سینا‘‘، ’’مرے دل ، مرے مسافر‘‘ ۔ ان کی کلیات ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے چھپ گئی ہے۔ مضامین کا مجموعہ ’’میزان‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔ ’’مہ وسال آشنائی‘‘ (یادوں کا مجموعہ) بھی ان کی تصنیف ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:21

فیض احمد فیضؔ کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
”آپ کی یاد آتی رہی رات بھر”
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم

جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

غمِ جہاں ہو رُخِ یار ہو کہ دستِ عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغِ فروزاں ہوئے تو ہیں

اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ

مری چشمِ تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

جو طلب پہ عہدِ وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مدعی تو ثوابِ صدق و وفا گیا

حدیثِ یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

متاعِ لوح و قلم چھین گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

رقصِ مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

تیرےدستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آ ہ نہ کی

دلِ عُشاق کی ۔۔۔۔۔۔خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں

حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اِقرار کریں اور خلش مِٹ جائے

تجھ کو دیکھا تو سیرِ چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

درد سے درد کے مارے نہیں دیکھے جاتے
ضُعف سے چاند سِتارے نہیں دیکھے جاتے

Leave a reply