فیک نیوز; تحریر فرازرؤف

0
42

فیک نیوز پوری دنیا کا ایک مسئلہ ہے جسے کاؤنٹر کرنے کے لئے ہر ملک میں کوڈ آف کنڈکٹ بنایا گیا ہے، ایسے عناصر جو جعلی خبریں چلاتے ہیں انہیں سخت سے سخت سزا اور جرمانے کیے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ سازشیں ایسی ہوتی ہیں جس میں فیک نیوز پھیلانے والے عناصر یا تو جعلی اکاؤنٹ کا سہارا لیتے ہیں یا پھر بیرون ملک بیٹھ کر اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کرتے ہیں۔

 دنیا میں کچھ ایسے ملک بھی ہیں جو مس انفارمیشن پھیلا کر دوسرے ملکوں کو ڈی سٹیبلائزر کرتے ہیں۔ جس کی حالیہ مثال بھارت کا وہ نیٹ ورک تھا جو فیک ناموں سے بیرونی ملک بیٹھ کر ملک اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے تاکہ مغربی ممالک پاکستان پر پابندیاں لگا سکیں۔

یورپی یونین میں فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن پر کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے ‘ای یو ڈس انفو لیب’ کی تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر سال قوام متحدہ کا انسانی حقوق سے متعلق اجلاس میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق سے متعلق جھوٹی من گھڑت ڈس انفارمیشن پھیلائی جاتی ہے۔

یورپی یونین کے اس تحقیقاتی ادارے کے مطابق ڈس انفارمیشن پھیلانے والے ان اداروں کے تانے بانے بھارت سے جا ملتے ہیں۔ یہ تحقیقات اتنی وسیع ہیں کہ اس میں غیر سرکاری تنظیمیں اور این جی اوز، بڑے پیمانے پر فیک نیوز پھیلانے والی ویب سائٹس اور ان سے جڑی شخصیات کی واضح نشاندہی کی گئی ہے۔ 

اس نیٹ ورک کا مقصد پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرنا اور بھارت کا نیریٹیو کو بڑھاوا دینا تھا۔ اس نیٹ ورک کی سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ یہ ڈس انفارمیشن اتنے بڑے پیمانے پر پھیلا دیتے تھے کے بظاہر ایسا لگے گا جیسے جو موقف پیش کیا جا رہا ہے اس کو ایک بہت بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہے۔ اس مقصد کے لیے این جی اوز کا استعمال کیا گیا جن کا کام انسانوں کی خدمت نہیں بلک پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دینا اور خطرناک پراپیگنڈے کو مغربی ممالک میں پذیرائی دینا تھا۔

اس نیٹ ورک کا سب سے اہم مقصد کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنا اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جو تجارتی مراعات "جی ایس ٹی پلس” کی صورت میں دی جا رہی ہیں ان کو روکنا تھا۔

پاکستان نے یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کے وہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا کر سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی پر سخت نوٹس لے۔

اسی طرح کا پراپوگنڈا اندرونی سطح پر بھی کیا جاتا ہے کچھ ایسے صحافی جن کا کام دن رات جھوٹی خبریں پھیلا کر ملک کے امیج کو بین الاقوامی سطح پر خراب کرنا ہے۔ اگر ایسے صحافیوں کو انہی کی پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں پر محاسبہ کیا جائے تو یہ آزاد صحافت کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ 

عمران خان کی حکومت وہ واحد حکومت ہے جس نے فیک نیوز پر سب سے زیادہ نقصان اٹھایا دن رات ایسی جھوٹی من گھڑت کہانیاں چھاپی گی جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ ایسے ایسے صحافی جو ٹی وی پر بیٹھ کر پاکستان کی معیشت پر تبصرے کرتے دیکھا گیا جن کا معیشت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، کیا ہم اسے محض صحافتی بد دیانتی کہیں یا ملک دشمنی؟

لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں صاف دامن صحافی بھی موجود ہیں جن کے قلم کی روشنی سے صحافت کا مان زندہ ہے۔ اور ایسے صحافیوں کو حکومت اور عوام کی طرف سے سہرایا بھی جاتا ہے۔ 

ضرورت کی چیز کی ہے کہ اب ہمیں بھی پاکستان میں ایک ایسا صحافتی رول آف بزنس بنانا ہوگا جس سے جھوٹی خبریں پھیلانے اور ملکی اداروں کے خلاف زہر اگلنے والے ایسے عناصر جو بیرونی ایجنڈوں کے ساتھ کام کرتے ہیں انہیں سخت قانون سازی سے قانون کی گرفت میں لایا جا سکے، اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آزاد صحافت کے نعروں کے پیچھے چھپ کر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔

تمام صحافتی ادارے آیا وہ پرنٹ میڈیا سے ہے یا ڈیجیٹل میڈیا سے انہیں مل بیٹھ کر حکومت کے ساتھ مخلصانہ لائے عمل ترتیب دینا ہوگا جس سے آنے والی نسلیں صحافت کے اس مقدس فریضے کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔

Author: Faraz Rauf 

Twitter ID: @farazrajpootpti

Leave a reply