اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف شاعر” فانیؔ بدایونی صاحب “ کا یومِ ولادت…

0
33

آج – ١٣ ستمبر ١٨٧٩

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف شاعر” فانیؔ بدایونی صاحب “ کا یومِ ولادت…

فانی کا اصل نام شوکت علی خان تھا۔ شوکت تخلص ہو سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے فانی تخلص رکھ کر اس خواہش کی تسکین کا سامان کیا۔
وہ ١٣ ستمبر ١٨٧٩ء کو پیدا ہوئے ۔
جب کبھی ہم کو دامن بہار سے عالم ِیاس میں بوئے کفن آتی ہے تو فانی کی یاد آتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے موت ہی کو ”زندگی جانا تھا اور غم کو موضوع بنایا۔
جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے ’’ان کی وکالت کبھی نہ چلی۔اس لئے کہ وہ شعر خوانی اور دل کی رام کہانی کا سلسلہ وہ توڑ نہیں سکتے تھے اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ غم دوراں کے ساتھ غم جاناں نے بھی رہی سہی کسر پوری کر دی ،ان کا ذوق سخن ابھرتا اور شیرازۂ وکالت بکھرتا گیا۔اور غریب کو پتہ بھی نہ چلا کہ میری معیشت کا دھارا ایک بڑے ریگستان کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔وہ پریکٹس کی جگہیں بدلتے رہے لیکن نتیجہ ہر جگہ وہی تھا گھوم پھر کر وہ ایک بار پھر لکھنو پہنچے اور اس بارغم دوراں کے ساتھ وہاں غم جاناں بھی ان کا منتظر تھا۔یہ تقّن نام کی اک طوائف تھی جو ایک رئیس کے لئے وقف تھی جوش کے الفاظ میں معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ بیچارے کے معاشقہ میں بھی فساد رونما ہونے لگا چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا ایک طرف تو معاشی زندگی کی نبضیں چھوٹیں اور دوسری طرف عاشقانہ زندگی میں ایک رقیب روسیاہ کے ہاتھوں ایسا زلزلہ آیا کہ ان کی پوری زندگی کا تختہ ہی الٹ کر رہ گیا۔کانپتے ہاتھوں سے بوریا بستر باندھ کر لکھنو سے آگرہ چلے گئے۔” فانی جگہ جگہ قسمت آزماتے رہےاور ہر جگہ فلاکت اور عشق ان کے ساتھ لگے رہے اٹاوہ میں وہ نور جہاں کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے لیکن کچھ دن بعد اس نے آنکھیں پھیر لیں آخر میں فانی حیدر آباد چلے گئے جہاں مارراجہ کشن پرشاد شاد ان کے مدّاح تھے ۔فانی نے اپنی زندگے کے کچھ بہترین اور با لآخر بدترین دن حیدرآباد میں گزارے۔جوان بیٹی اور پھر بیوی کا داغ دیکھا اور نہایت بیکسی اور کسمپرسی میں ١٢ اگست ١٩٤١ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

🌹 ممتاز شاعر فانی بدایونی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین… 🌹

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

ہرمصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردشِ دوراں کو رلایا میں نے

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم

میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

رونے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں فانیؔ
یہ اس کی گلی ہے تیرا غم خانہ نہیں ہے

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو

اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے
کیوں چارہ ساز تجھ کو امیدِ شفا بھی ہے

یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے

دیر میں یا حرم میں گزرے گی
عمر تیرے ہی غم میں گزرے گی

مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
نازِ ستم اٹھائے جا رازِ ستم نہ فاش کر

بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا

کفن اے گردِ لحد دیکھ نہ میلا ہو جائے
آج ہی ہم نے یہ کپڑے ہیں نہا کے بدلے

دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
ہر آنکھ برق پاش تھی ہر ذرہ طور تھا

میری ہوس کو عیشِ دو عالم بھی تھا قبول
تیرا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا

جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
آخر اسی نے ہم کو آنکھیں دکھائیاں ہیں

دل آباد کا فانیؔ کوئی مفہوم نہیں
ہاں مگر جس میں کوئی حسرت برباد رہے

🍁 فانی بدایونی

Leave a reply