فنکار اور مکا٘ر پارٹ ٹو

0
80

جی تو ہمارے ملک میں ایک اور کام جو ہمارے فنکار کرتے ہوئے زرا نہیں شرما رہے کے گانا کسی کا ہے اور ہٹ ہو کر مزے کوئی اور لے رہا ہے اور نہ ہی وہ اس موسیقار کا نام لے رہے ہیں اور نہ ہی اس شاعر کا ۔۔
جیسے کے ہم بات کر رہے تھے دھمال “ لال میری پت رکھیو بلا” اس دھمال کو سب سے پہلے میڈم نورجہاں نے ان کے بعد عنائت حسین بھٹی اور انکے بعد تقریباً ۱۰۰ سے زیادہ سنگرز اس دھمال کو گا چکے ہیں بلکہ کچھ انڈین سنگرز نے بھی اس دھمال کو گایا اس دھمال کو گا کر بہت سارے سنگرز نے خاصا پیسہ بھی بنایا لیکن جس انسان نے اس دھمال کی دھن بنائی کبھی بھی کسی سنگر نے انکا نام لینا گوارا نہیں کیا اور نہ ہی اس کو لیکھنے والے شاعر کا تزکرہ کہیں سننے میں آیا
اس دھمال کو جس نے بھی گایا وہ پھر اسی دھمال سے پہچانا گیا یوں یہ دھمال بہت سارے سنگرز کی پہچان بنی

سنا ہے کے جس قوم نے اپنی ثقافت کو چھوڑ دیا وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکی تو بدقسمتی سے یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا اور ہو تا چلا جا رہا ہے یہاں بھی ان انسانوں کی قدر نہیں کی گئی ہم نے اپنے دانشوروں کو ادیبوں کو کہانی نویسوں کو شاعروں کو ان موسیقاروں کو جنھوں نے صوفی کلام کو سروں میں اتار کر نہ کہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھا بلکہ اپنے مذہب کو بھی دنیا بھر میں پھیلایا اور اپنے ملک کی پہچان کا باعث بنے

ہم نے مل کر ان کو جیتے جی مار دیا جیسے کہ ماسٹرعاشق حسین جنھوں نے “ لال میری پت “ کی دھن بنائی کسی فنکار نے انکا نام لینا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی انکا حال احوال جاننے کی کبھی کوشش کی انھوں نے ایک عرصہ دراز مفلسی میں گزارا ۔۔۔۔
جس کا گانا گانے سے لوگوں نے اپنی نسلیں پال لیں اور اس دھمال کے موسیقار ماسٹر عاشق حسین جنھوں نے اس دھمال کی اتنی پیاری دھن ترتیب دی وہ اور اس کے بچے ایک وقت کی روٹی کو ترستے مر گئے

حکومت سے کیا گلہ کرنا حکومت تک بھی تو بات کسی ساتھی فنکار نے ہی پہنچانی تھی مگر ۔۔۔یہی تو ہم بات کر رہے ہیں کہ ہمارے فنکاروں میں احساس ختم ہو چکا ہے اسی لیے آجکل کے فنکاروں کے کام میں اثر بھی نہیں رہا ہمارے ملک میں کہنے کو تو بہت فنکار ہیں مگر کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ کوئی ایک ہی ماسٹرعاشق حسین کی مفلسی میں انکی مدد کرتا کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ جن کو انکا پتہ تھا وہ تو کم سے کم انکی مدد کرتے یا انکا نام میڈیا میں لیتے انکا بیٹا جو کی بورڈ بجاتا تھا اسکو بھی کسی فنکار نے کام نہ دیا تو اس نے گزر بسر کرنے کے لیے پکوڑوں کی دوکان بنا لی مگر بدقسمتی سے اسکو ہارٹ اٹیک ہوا وہ بھی اپنے بوڑھے
والد صاحب کو چھوڑ کر چلا گیا کتنے بے حس ہیں آج کے فنکار ان کو شرم ہی نہیں آتی اپنے آپ کو فنکار کہلواتے ہوئے ۔۔۔
ایسے ہی اس دھمال کے شاعر ہیں “ساغر صدیقی” جن کے پاس بیٹھ کر بہت سے لوگ شاعر بن گئے انکی بھی ساری زندگی سڑک کنارے گزر گئی وہ بھی ساری زندگی مفلسی میں گزار کر چلے گئے ہمارے ملک میں فنکار کے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے جیسے ہی وہ مرتا ہے تو ملک کے کچھ فنکار جو اس دن فارغ ہوں وہ اس مرنے والے کا قصیدہ پڑھنے کے لیے پہلی لائن میں کھڑا ہونے کی لڑائی لڑتے ہیں کہ انکی فوٹو میڈیا میں لگ جائے اور کئی مرنے والوں کو تو مرنے کے بعد بھی کوئی عزت نہیں دی جاتی کوئی نہیں جاتا ان کے مرنے پر بھی ۔۔۔۔
یہ کس قسم کی بے حسی ہے؟
یہ کون سے فنکار ہیں ؟
فنکار ہیں یا مکار ہیں ؟

Leave a reply