فرحت عباس شاہ بڑا شاعر لیکن۔۔۔
فرحت عباس شاہ بڑا شاعر لیکن۔۔۔
تحریر: شاہد نسیم چوہدری
فرحت عباس شاہ ایک ممتاز شاعر ہیں جن کی شخصیت اور خیالات ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے ان کے طرزِ تکلم اور خیالات کے بارے میں مجھ سے گلہ کیا، جو وہ علی زریون اور تہذیب حافی کے حوالے سے رکھتے ہیں، لیکن میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ میرا اصول ہے کہ سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کروں۔ میں نے دوست سے صاف کہا کہ وہ بڑے شاعر ہیں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ آپ غلط کہہ رہے ہیں، کیونکہ میرے نزدیک بغیر ثبوت کے کسی کی رائے کو قبول کرنا مناسب نہیں۔
تاہم، حالیہ دنوں میں فرحت عباس شاہ کے ایک انٹرویو نے میرے خیالات کو جھٹلا دیا۔ ان کے بیانات نے وہی کچھ ظاہر کیا جو میرے دوست نے کہا تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اکثر تعصبات یا ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ اس واقعے نے مجھے سکھایا کہ کبھی کبھار دوسروں کی باتوں پر کان دھرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
مشہور شاعر فرحت عباس شاہ کے اس انٹرویو میں، نوجوان اور مقبول شاعر تہذیب حافی کے حوالے سے تلخ اور غیر شائستہ گفتگو کی گئی۔ فرحت عباس شاہ جیسے بڑے نام سے ایسی باتوں کی توقع نہیں تھی، کیونکہ وہ خود ایک وسیع تجربے اور ادب کے میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے تہذیب حافی کو "بیوقوف” کہا اور ان کی شاعری کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیان مجھ سمیت کئی ادبی دوستوں کے لیے حیرت اور دکھ کا باعث بنا۔
ادب اور شاعری انسانی جذبات، خیالات، اور فطرت کے احساسات کو بیان کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ یہ صرف الفاظ کی جنبش نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے جذبات کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی مختلف خیالات اور نظریات کے ٹکراؤ نے ادب کو وسعت دی ہے۔ مگر کبھی کبھار، ہم دیکھتے ہیں کہ تخلیقی دنیا میں شخصی تنقید اور ذاتی حملے ادبی اقدار کو مجروح کرتے ہیں۔
ادب کے دائرے میں اختلافِ رائے ایک فطری عمل ہے، مگر اس کی حدود کو پار کرنا، کسی کی تخلیقی صلاحیت کو کمتر ثابت کرنا، یا ذاتی حملے کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ ادب کی روح کے بھی منافی ہے۔ ہر تخلیق کار اپنی طرز کا منفرد ہوتا ہے اور اس کا کام اس کی شخصیت، ماحول، اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ تہذیب حافی کی شاعری نے نئی نسل کے دلوں میں جگہ بنائی ہے، ان کے اشعار میں سادگی، جذبات، اور گہرائی نمایاں ہیں۔
فرحت عباس شاہ کا بیان نہ صرف تہذیب حافی بلکہ ان کے مداحوں کے لیے بھی ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا۔ ادب کے بڑے ناموں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ ان کی صلاحیتوں پر حملہ کریں۔ ادب کی دنیا میں بڑے نام وہی بنتے ہیں جو دوسروں کے لیے راستہ ہموار کریں، نہ کہ ان کی راہ میں کانٹے بچھائیں۔
ادب میں وسعت اور برداشت ہونی چاہیے۔ ادب کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ یہ مختلف خیالات اور نظریات کو جگہ دیتا ہے۔ ہر شاعر اور ادیب کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ اقبال کی فلسفیانہ شاعری، غالب کی گہرائی، اور فیض کی انقلابی شاعری سب اپنے اپنے دائرے میں مقبول ہیں۔ اسی طرح، تہذیب حافی نے بھی اپنے انداز میں اردو شاعری کو ایک نئی سمت دی ہے۔ شاعری صرف مشکل الفاظ اور پیچیدہ خیالات کا نام نہیں بلکہ سادہ الفاظ میں گہری بات کہنے کا فن بھی شاعری ہے۔ تہذیب حافی کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نئی نسل کے دلوں کی بات کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک ایسی گہرائی ہے جو نوجوانوں کی زندگی کے مسائل، محبت، اور جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔
عزت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر انسان کی عزت اور شہرت اللہ کی دین ہے۔ کوئی کسی کو عزت نہیں دے سکتا اور نہ چھین سکتا ہے۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ کس کو کس مقام پر فائز کرتا ہے۔ فرحت عباس شاہ کی گفتگو نے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ بڑا نام ہونا ضروری نہیں کہ آپ بڑا دل بھی رکھتے ہوں۔ تہذیب حافی جیسے شاعروں کو چاہیے کہ وہ ان باتوں کو دل پر نہ لیں اور اپنی تخلیقی دنیا میں مصروف رہیں۔
ادب میں مثبت رویوں کی ضرورت ہے، اور خاص طور پر ایک بڑے شاعر کو اس طرح کی باتیں کر کے اپنا قد چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ ادب کو ذاتی اختلافات اور انا کی قربانیوں سے پاک رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے کو ایسے ادیبوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف تخلیقی میدان میں آگے بڑھیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی احترام اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ فرحت عباس شاہ جیسے ادیبوں کو اپنی تنقید کے انداز پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ وہ ادب کی دنیا میں اپنی عظمت کو اسی وقت برقرار رکھ سکتے ہیں جب وہ دوسروں کو بھی عزت دینا سیکھیں گے۔
ادب صرف خیالات کے اظہار کا نام نہیں بلکہ یہ دلوں کو جوڑنے اور ذہنوں کو وسعت دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمیں ان تلخ واقعات سے سیکھنا چاہیے اور ادب کے میدان میں مثبت رویوں کو فروغ دینا چاہیے۔ شخصی تنقید سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم تخلیقی آزادی، برداشت، اور ادب کے احترام کی روایت کو زندہ رکھیں۔ یاد رکھیں، عزت اور شہرت صرف اللہ کی عطا ہے، اور اس کا صحیح استعمال ہی ہماری اصل کامیابی ہے۔ ادب کی دنیا میں اصل عظمت نہ الفاظ کی گہرائی میں ہوتی ہے اور نہ ہی شہرت کی بلندی میں، بلکہ رویوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
مارکیٹ میں یہ بات زباں زدِ عام ہے کہ فرحت عباس شاہ جیسے سینئر شاعر کا یہ کہنا کہ وہ علی زریون یا تہذیب حافی جیسے شاعروں کے ساتھ کسی پروگرام میں شرکت نہیں کریں گے، ان کے دل کی "بڑائی” کو خوب واضح کرتا ہے۔ دوسری طرف، علی زریون کا یہ کہنا کہ اگر فرحت عباس شاہ میرے پروگرام میں ہوں تو وہ ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائیں گے، ایک حقیقی بڑے انسان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ رویوں کا فرق ہے جو بتاتا ہے کہ عزت کیسے کمائی جاتی ہے اور کیسے کھوئی جاتی ہے۔ ایک طرف انا، حسد، اور تکبر کا بوجھ ہے، تو دوسری طرف عاجزی، احترام، اور وقار کا مظاہرہ۔ فرحت عباس شاہ جیسے لوگوں کو شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بڑائی لفظوں کی نہیں، بلکہ کردار کی ہوتی ہے۔ علی زریون کا جواب ادب کے اُس اصل سبق کی یاد دہانی ہے جسے شاید کچھ "بڑے” شاعر بھول چکے ہیں۔ ہمیں ادب کا یہ سبق ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ عزت وہی پاتا ہے جو دوسروں کو عزت دینا جانتا ہے۔
بلاشبہ، فرحت عباس شاہ شاعری میں بڑا نام رکھتے ہیں، لیکن جونیئر شاعروں کے بارے میں ان کا طرزِ تکلم اور خیالات اچھے نہیں۔