پاکستان کی سیاست میں ایک طرف جہاں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے عوامی حمایت کی ضرورت ہے، وہیں دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے کچھ ارکان اور رہنما اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اداروں اور عوام کے ساتھ دشمنی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے مختلف مواقع پر احتجاج اور شور شرابے کا سلسلہ جاری رہا ہے، جس میں ملک میں عدم استحکام اور تشویش پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان احتجاجات کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا یا سیاسی مخالفین کو کمزور کرنا ہوتا ہے، لیکن ان مظاہروں میں پُرتشدد واقعات اور غیر قانونی سرگرمیاں بھی سامنے آئی ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے جدید ترین اسلحہ سے لیس شرپسندوں کو اسلام آباد بھیجا، جہاں ان لوگوں کا مقصد صرف دھرنا دینا نہیں تھا بلکہ 2014ء کی طرح پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ کرنا تھا۔ 2014ء میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پارلیمنٹ اور سرکاری ٹی وی پر حملہ کیا تھا، جو ایک سنگین قدم تھا اور جس نے ملکی جمہوریت کو نقصان پہنچایا تھا۔پی ٹی آئی کی سیاست میں پرتشدد احتجاج ایک معمول بن چکا ہے۔ پارٹی کے کارکنوں نے نہ صرف سڑکوں پر تشدد کی راہ اپنائی، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر بھی حملہ کیا۔ 9 مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے فوجی تنصیبات اور دیگر حساس مقامات پر حملے کیے، جس سے ملک میں افراتفری پھیل گئی۔ یہ حملے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کی تضحیک کرنے اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش تھے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کا یہ رویہ نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ ایک ایسی سیاست کی عکاسی کرتا ہے جس میں طاقت اور تشدد کو جواز بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے اور سرکاری ٹی وی پر قبضے کی کوششیں اس بات کا غماز ہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی میں پُرتشدد طریقے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔2014ء میں پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا، جس میں پارٹی کے رہنماؤں نے پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر حکومت کی عمارتوں کو گھیر لیا تھا۔ یہ دھرنا طویل عرصے تک جاری رہا، جس کی وجہ سے حکومتی اداروں کے کاموں میں خلل آیا اور ملک کے آئینی نظام کو نقصان پہنچا۔ اگرچہ اس دھرنے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اپنے مطالبات کی حمایت میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کے اقدامات نے پاکستان کی جمہوری روایات اور آئین کی بالادستی کو چیلنج کیا تھا۔
اب، 2024ء میں، پی ٹی آئی نے دوبارہ اسلام آباد میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مرتبہ ان کے احتجاج کا مقصد وفاقی حکومت کو کمزور کرنا اور اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنا تھا۔ تاہم، ایسے احتجاجوں سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا بلکہ عوام کی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی معیشتی مشکلات اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے غیر قانونی اقدامات ملکی استحکام کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ کی حکومت کے سرکاری وسائل کا استعمال کر کے احتجاج کو مزید منظم اور طاقتور بنانے کی کوشش کی۔ خیبر پختونخواہ میں حکومت کا اقتدار رکھنے والی پی ٹی آئی نے ریاستی وسائل کا استعمال کر کے عوامی احتجاج کی شدت بڑھانے کی کوشش کی۔ اس سے نہ صرف حکومت کی انتظامیہ پر بوجھ بڑھا، بلکہ اس کے ذریعے ملک کی سیاسی فضا میں مزید تلخی پیدا ہوئی۔
اس احتجاج کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ بانی پی ٹی آئی، عمران خان، کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے رہنما کی رہائی کے لیے پرتشدد احتجاج کیا۔ عمران خان پر بدعنوانی اور کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، اور ان کے خلاف کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ ان پر کرپشن کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، اور ان کی رہائی کے لئے کیے گئے احتجاجات دراصل ان مقدمات سے بچنے کی ایک کوشش ہیں۔بانی پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان کے خلاف چلنے والی سماعتوں میں تاخیر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عمران خان کے مقدمات کو طول دیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، ان پر لندن میں ضبط شدہ رقم کو وائٹ منی میں تبدیل کرنے کا الزام بھی ہے۔ ان الزامات سے متعلق ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس نوعیت کے معاملات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
کسی بھی جمہوری ملک میں ایسے پرتشدد احتجاج اور سیاسی عدم استحکام کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کا پرتشدد احتجاج اور سیاسی مقاصد کے لئے غیر قانونی حربوں کا استعمال ایک تشویش کا باعث ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کے عوام اور ادارے ہمیشہ ان قوتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں جو ملک کے آئینی اور جمہوری اصولوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتی ہیں