محسن اردو’ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ! فاطمہ قمر کا بلاگ

0
58

محسن اردو’ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ! فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک

یہ ہیں پاکستان کی بد عنوان ترین عدلیہ میں شفاف ترین نفاذ اردو کا فیصلہ تاریخ ساز فیصلہ لکھ کر پاکستان کی تاریخ میں امرہونے والے محسن اردو – سابق منصف اعلی جناب جسٹس جواد ایس خواجہ!
جو صرف 23 دن عدالت عظمیٰ کی کرسی پر بطور منصف اعلی بیٹھے اور اپنی ریٹائرمنٹ کے
آخر ی لمحوں میں نفاذ اردو فیصلہ لکھ کر ریاست پاکستان ‘ آئین پاکستان اور فرامین قائد اعظم سے اپنی وفاداری کا حق نبھادیا۔ آپ کا ذریعہ تعلیم انگریزی میڈیم تھا’ آپ ایچی سن اور برکلے کے فارغ التحصیل ہیں۔۔لیکن فطری طور پر غلامی سے نفرت کا احساس لئے ہوئے ہیں۔
آپ کا فرمانا ہے :
” پاکستان میں انگریزی کاسںب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ معاشرتی تفریق پیدا کرتی ہے’ کسی بھی ملک کے شہریوں کے لئے اس سے بڑا ظلم کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے ریاست کے قوانین غیر ملکی زبان میں ہوں ‘ اگر کوئئ شہری کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ عدالت سے یہ کہہ کر اپنا جرم معاف کروا سکتا ہے کہ مجھے اس قانون کی زبان کا علم نہیں ہے۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ "جب بھی کسی اشرافیہ نے بزور ڈنڈا حکومت قائم کرنی ہو تو اشرافیہ اپنی زبان الگ رکھے گی اور عوام کی الگ'”
آپ نے انکشاف کیا اور چیلنج کیا ہے کہ اگر چہ میں نے ساری زندگی قانون کی تعلیم انگریزی میں حاصل کی۔لیکن اس کے باوجود پاکستان کے قوانین کچھ ایسی انگریزی میں رقم ہیں جنہیں میں اپنی تمام تر انگریزی فہمی کے باوجود نہ سمجھ سکا تو اسے عام شہری کیا سمجھے گا؟ اگر کوئی قانون دان مجھے ان قوانین کا مطلب سمجھادے تو میں اس کا بے حد ممنون ہوگا”
جن دنوں اپ عدالت عظمی میں نفاذِ اردو کے تاریخ ساز مقدمے کی سماعت کررہے تھےاور اپنے تمام فیصلے اردو میں رقم کر رہے تھے۔۔انہی دنوں میں چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کو مظفر آباد کے ایک پرائمری پاس دہقان نے ان کو اردو میں فیصلہ لکھنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہمیں اعزاز حاصل ہے کہ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے وہ خط خاکسار کو بھی بھیجا۔ جس میں اس پرائمری پاس کسان نے لکھا ‘
” چیف جسٹس صاحب ! آپ نے میرے کیس کا فیصلہ اردو میں لکھا ہے ‘ میں اسے خودپڑھ سکتا ہوں ‘ اگر یہ فیصلہ انگریزی میں لکھا ہوتا تو پہلے تو مجھے دس ہزار کا ایک وکیل کرناپڑتا جو مجھے اس فیصلے کامطلب سمجھاتا’ دوسرا میرا دل بھی خوفزدہ رہتا کہ نجانے اس فیصلے میں کیا لکھا ہے؟”
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ فرماتے ہیں کہ یہ ہے وہ انقلاب جو پاکستان میں نفاذ اردو فیصلے پر عملدرآمد سے رو نما ہوگا۔جس میں ایک پرائمری پاس بھی اپنے حقوق اورعدالت کی زبان سے واقف ہو سکے گا۔ اور ملک کے غلط قوانین کے خلاف سینہ سپر ہوگا۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے بتایا کہ اگرچہ کہ ” میں نے ساری زندگی فیصلے انگریزی میں رقم کئے ہیں’ لیکن جب میں نے اردو’ میں فیصلے لکھنے شروع کئے تو مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی”
انہوں نے نفاذ اردو کی اہمیت سے متعلق سب سے پہلا نوٹ سینئر صحافی’ کالم نگار ‘ اینکر پرسن حامد میر کے کیس میں لکھا۔ اس لئے ہم حامد میر کو یا د دلاتے ہیں کہ ابھی اپ پر نفاذ اردو کے حوالے سے پروگرام کرنا قرض ہے۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صرف انہوں نے زبانی طور پر ہی یہ فیصلہ نہیں لکھا ‘ بلکہ وہ نفاذ اردو قافلے کے عملی سپاہی ںھی ہیں۔پاکستان کی عدلیہ کی غلام تاریخ میں وہ پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے اپنے عہدےکا حلف اردو میں لیا۔
۔اپنے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد لاہور میں ایک سکول قائم کیا ہے جہاں پر امیر و غریب کے بچے سب ایک ہی عمارت میں اردو’ زریعہ تعلیم ‘ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آپ نے اس سکول میں سب سے پہلے اپنے نواسی ‘ نواسوں کو داخل کیا ہے۔۔یہ سکول پاکستان کی اشرافیہ کی جانب سے قائم کردہ پہلا تعلیمی ادارہ ہے جو تعلیمی مساوات کا عملی نمونہ ہے۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے بائیس دن کی قلیل ترین منصف اعلی کی نشست پر سیکورٹی کی خصوصی سہولت لینے سے انکار کردیا’ کسی بھی قسم کے پروٹوکول کے بغیر اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے۔۔ دوران ملازمت کسی بھی زرائع ابلاغ پر آنے سے گریز کیا۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے جب ںفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ رقم کیا تو آپ نے فرمایا ‘
” ہم نے نفاذ اردو کا پودا لگا دیا ہے”
ہم محسن اردو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ” محسن اردو’ خواجہ صاحب ہم پاکستان قومی زبان تحریک کے پلیٹ فارم سے دن رات اپ لگائے گئے پودے کی آبیاری کررہے ہیں’ اس کو نہ صرف زرخیز ترین کھاد ڈال رہے ہیں’ بلکہ اس کو لاحق سونڈیوں ‘ کیڑے مکوڑوں فالتو جھاڑ جھنکار کا بھی مناسب سدباب کر رہے ہیں ان شاء اللہ ہم اس پودے کو ایک تنا ور’ سایہ دار درخت بنا کر ہی دم لیں گے ! ان شاءاللہ !
بس اپ سے درخواست ہے کہ اب اپ اپنی خلوت نشینی ‘ اور درویشی کو خیر باد کہیں اور آکر تحریک کی قیادت سنبھالیں۔
محسن اردو ‘ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نفاذ اردو فیصلہ رقم کرنے کے بارے میں ایک بات بہت عاجزی سے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہتے ہیں۔
” اے فیصلہ ‘ میں نئی کیتا’ اے اونے کرایا ہے”
یقیناً پاکستان میں غلامانہ اشرافیہ میں اتنا تاریخ فیصلہ کوئی آزاد ‘ باحمیت ‘ قومی جذبے سے سرشار جج ہی اللہ کے خاص فضل سے دے سکتا تھا’ اور اللہ نے یہ فضل و رتبہ محسن اردو ” چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ہی کو عطا کرنا تھا!
یہ اس کی عطا ہے وہ جس کو چاہے اپنے کرم سے نواز دے!
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صرف بائس دن کی قلیل ترین منصف اعلی کی نشست پر فائز ہو کر نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ رقم کرگئے۔جسے انکے بعدمیں آنے والےچیف جسٹس ثاقب نثار المعروف بابا رحمتاں اور ڈیم سرکار تین سال کی طویل مدت میں بھی عملی جامہ نہ پہنا سکے’
افسوس ‘ صد افسوس !
یہ سب اپنی دلچسپی اور قومی امور سے اخلاص کی تر جیحات ہیں۔
فآ طمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک

Leave a reply