فیمینسٹ تحریر انعم نوید
میں بھی فیمینسٹ ہوں. مگر میرا تعلق میرا جسم میری مرضی، اپنا کھانا خود گرم کرو اور میں تو ایسے ہی بیٹھوں گی جیسے نعروں کی علمبردار خواتین سے نہیں ہے. میرا جسم میرے خالق کی مرضی. جو میرے اللَّه نے مجھے حکم دیا ہے میں اِس جسم کو ویسا ہی رکھوں گی کیونکہ یہ جسم میرے پاس امانت ہے.
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ایک انٹرویو میں دیے بیان پر بہت واویلا مچا. آزادی پسندوں نے اس سے متعلق سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلایا اور احتجاج بھی ریکارڈ کرایا. سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وزیراعظم کے بیان میں ایسا کیا تھا کہ اتنا واویلا مچا.
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ، "اگر خواتین کم کپڑے پہنیں گی تو اِس کا اثر مرد پر ہو گا اگر وہ روبوٹ نہیں ہیں.” پھر اُنہوں نے مغربی اور مشرقی معاشرے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ، "مغرب میں ڈسکو اور نائٹ کلبز ہوتے ہیں جو کہ ایک بالکل مختلف رہن سہن اور معاشرہ ہے. مشرقی معاشرے میں یہ سب نہیں ہوتا. اِس وجہ سے یہاں اگر مرد کی شہوت کو اُبھارا جائے گا تو وہ اُس کی تسکین کے لیے اِسی معاشرے میں راہ ڈھونڈے گا. اور اِس کا اثر معاشرے پر پڑے گا.”
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ بیان کس حد تک درست ہے. تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہماری معاشرتی اقدار کے حوالے سے یہ بیان بالکل درست ہے.
اِس بات کے حق بجانب ہونے میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ زیادتی اور جنسی ہراسگی کے واقعات کا عورت کے لباس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں. ایک عورت اپنی ذاتی زندگی میں مرضی کی مالک ہے اگر وہ اللَّه کا حکم نہیں ماننا چاہتی. مگر عورت مرضی کا لباس پہن کے جنسی ہراسگی اور زیادتی کی مستحق نہیں.
مگر ایک حقیقت یہ ہے کہ کپڑوں کا تعلق بالواسطہ مردوں کی نفسیات سے جڑتا ہے. جب ایک ایسا مرد، جس کی کوئی اخلاقی تربیت نہیں ہوئی، اپنے اردگرد چھوٹے یا کم لباس والی خواتین کو دیکھے گا تو یقیناً اُس کی ہوس کو ہوا ملے گی. اُس سے دماغ میں ہیجان کی کیفیت طاری ہو گی. اور ہمارے جیسے معاشرے میں، جہاں نہ ڈسکو ہیں نہ نائٹ کلبز، وی اپنی ہوس پوری نہیں کر سکے گا. تو اِس کا نتیجہ بہت ہولناک نکلے گا. کیونکہ پھر اُس درندہ صفت مرد کے لیے رنگ، نسل، عمر اور صنف کا فرق ختم ہو جائے گا. وہ کسی بھی کمزور انسان کو اپنی درندگی کا نشانہ بنائے گا.
یہاں پر علمِ نفسیات کا ایک مضمون سایئکلاجیکل ڈسپلیسمنٹ اِس کی مزید وضاحت کرتا ہے.
کیونکہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اس لیے اِس معاملے کا اسلامی پہلو دیکھا جائے تو قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت نمبر ٣١ کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
"مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں. اور اپنی زینت کو کسی پر ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے. اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال دیں.”
قرآن کریم کا یہ حکم مومن خواتین کے لیے ہے. لیکن اِس آیت سے ایک آیت پہلے یعنی سورۃ النور کی آیت نمبر ٣٠ کا حکم کچھ یوں ہے:
"مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں. یہی اِن کے لیے پاکیزگی ہے. لوگ جو کچھ کریں اللَّه تعالیٰ اُن سے خبردار ہے.”
یہ دو آیات اِس پورے معاملے کی وضاحت کرنے کے لیے کافی ہے.سب سے پہلے مرد اور عورت دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے.
یعنی اصل مسئلہ ہی اِن نگاہوں کا ہے. دیکھنے سے اگر ہیجان برپا نہ ہوتا تو فحش ویب سائٹس کا تو کام ہی تمام ہو جاتا اور بھوکے کو کھانا دیکھ کر کبھی منہ میں رال نہ آتی.
یا اِس کو ایسا کہہ لیں کہ ملبوسات کی دکانوں میں سب سے دلکش جوڑے دکان کے داخلی حصے پر نمائش کے لیے آویزاں نہ کیے جاتے. یہ نمائش ہی انسان میں خریداری کی خواہش پیدا کرتی ہے.
دوسرے نمبر پر اللَّه تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے. کیونکہ اگر نگاہوں کی حفاظت کے باوجود نگاہ پڑ بھی جائے تو خود کو پاکیزہ رکھنے کے لیے حفاظت اور احتیاط ضروری ہے.
پھر تیسرے نمبر پر ایک حکم عورتوں کو زائد دیا گیا ہے. اور وہ یہ ہے کہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں اور اوڑھنیاں گریبانوں پر ڈال لیں.
اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ حکم مردوں کو کیوں نہیں ملا؟ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ زینت یا سجاوٹ ہے ہی عورت کے پاس اور اسی کو چھُپانے کا حکم دیا گیا ہے. تاکہ معاشرہ شر اور ہیجان سے پاک رہے.
اہم بات یہاں پر یہ ہے کہ عورتوں کے متعلق حکم سے پہلے اللَّه تعالیٰ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھو. کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر معاشرے میں صرف مسلمان عورتیں ہی بستی ہوں جو کہ پردہ بھی کرتی ہوں. یہ حکم اِس لیے ہے کہ کسی بھی عقیدہ، قومیت یا مذہب کی عورت شر سے محفوظ رہ سکے. کیونکہ مردوں سے سوال آخرت میں اُن کی نگاہوں بارے ہونا ہے.
فیمینزم کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ معاشرہ مادر پدر آزاد ہے. قطع نظر مذہب ہر معاشرے کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور کچھ پابندیاں ہوتی ہیں. مادر پدر آزادی کا کوئی بھی معاشرہ متحمل نہیں ہو سکتا.
فیمینزم کا تعلق عورت کے بنیادی حقوق کے ساتھ ہے. جِسے مادر پدر آزادی کے علمبرداروں نے ہائی جیک کر لیا ہے جو کہ برابری کا نعرہ لگاتے ہیں. جبکہ مسئلہ برابری سے بڑھ کر توازن کا ہے.
قرآن کریم میں جِس وجہ سے مرد کو افضل قرار دیا ہے وہ اپنے خاندان کی حفاظت اور بےدریغ قربانیاں ہیں. جبکہ ایک عورت تخلیق کے مراحل سے گزرتی ہے اور ایک انسان کو پیدا کرتی ہے. اِس لیے اُس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے.
یہ فضیلت تنقید کرنے والوں کو نظر نہیں آتی. پھر عورت نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہے. مرد جس نسل کو پالنے کی وجہ سے افضل ہے, اُس نسل کو پیدا کرنے اور تربیت کی ذمہ دار عورت افضل کیوں نہیں ہے. حقیقتاً سب کا اپنا مقام اور ذمہ داری ہے جس کا اُسی سے سوال ہونا ہے. جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت نمبر ٣٢ میں کہا گیا ہے:
"اور اِس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللَّه تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے. مردوں کا اُس میں سے حصہ ہے جو اُنہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اُن میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا. اور اللَّه تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگو. یقیناً اللَّه ہر چیز کو جاننے والا ہے.
میں پھر سے یہاں اِس بات کو واضح کر دوں کہ بلاتفریق رنگ، نسل، قومیت، حُلیہ اور مذہب کوئی عورت جنسی زیادتی اور ہراسگی کی مستحق نہیں. لیکن معاشرے کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے عورت اور مرد دونوں کو اپنا کردار نبھانا ضروری ہے. جنسی زیادتی اور ہراسگی جیسے واقعات تبھی ختم ہو سکتے ہیں جب سب اپنی اپنی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرے. خلاصہ یہ ہے کہ اپنے بچوں، خواہ وہ لڑکی ہو یا لڑکا، کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کیجئے تاکہ وہ ایک ذمہ دار شہری بن سکیں.
@NaimatRehmn