کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس کے حوالے سے پنجاب کی سب سے بڑی مارکیٹ حفیظ سینٹر کا جہاں بیشتر حصہ جل گیا اور اربوں کا نقصان ہوا وہیں ریسکیو اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے کی کمزوریاں اور کوتاہیاں بھی کھل کر سامنےآئیں صبح پونے پانچ لگنے والی آگ رات میں کہیں جاکر بجھائی جاسکی.
فائر برگیڈ کی اکثر گاڑیوں میں پانی ہی نہیں تھا ، اگر پانی تھا تو پائپ پھٹے ہوئے جس سے پانی کا پریشر ہی نہیں بن پا رہا تھا بیشتر گاڑیاں بےکار میں کھڑی تھیں اور ایک دو گاڑیاں آگے بجھانے میں مصروف تھیں.
سب سے اہم چیز جو ٹیکنیکل غلطی تھی جو فائر فائٹنگ کے بنیادی اصولوں میں ہے کہ الیکٹرانک کی اشیا اور مارکیٹ کو لگی آگ کو پانی سے بجھایا جا رہا تھا. پہلی بات تو یہ کہ الیکٹرانکس کی اشیاء کو لگنے والی آگ کو پانی سے بجھانا ہی بےوقوفی ہے کیونکہ اس سے آگ بجھتی نہیں اور بڑھک اٹھتی ہے چیز مکمل بےکار ہوجاتی ہے.دوسری بات جو چیزیں آگے کی حد سے باہر ہیں پانی کی بوچھاڑ میں وہ سب بھی بےکار ہوگئیں.
ہماری سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چیزوں اور اداروں کو اپڈیٹ کرنا ناممکن ہے یہاں پر البتہ کریڈٹ لینا سب کا من پسند مشغلہ ہے. گزشتہ دنوں میں موٹروے حادثہ میں بھی بجائے اس کے جائے وقوعہ پر پیٹرولنگ پولیس، ٹریفک پولیس کی عدم دستیابی پر بات ہوتی کریڈٹ لیا گیا کہ موٹروے ہم نے بنائی یہ وہ.
ایسے ہی حفیظ سینٹر کے تقریباً مکمل جل جانے کے بعد بجھنے والی آگ پر مبارکبادیں دی جارہی ہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ ادارہ ہم نے بنایا …حالانکہ بات اس پر ہونی چاہیے کہ فائر برگیڈ کے پاس آگ بجھانے کے دیگر ذرائع کیوں نہیں ہیں، گاڑیوں میں پانی کیوں نہیں ہے، گاڑیوں کے پائپ کیوں پھٹے ہوئے ہیں. الیکٹرانکس کی اشیاء کو لگنے والی آگ کو بجھانے کے متبادل ذرائع اور آلات کیوں نہیں ہیں.
ہم نے وہاں کے دوکانداروں کو حفیظ سینٹر میں لگی آگ پر روتے دیکھا اور رونا بنتا بھی تھا کہ سالوں کی محنت آگ میں جل رہی تھی اور وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے لیکن اگر یہ یہ رونا حادثے سے قبل رو لیا جاتا تو نقصان اتنا نہ ہوتا. جن لوگوں نے حفیظ سینٹر کو وزٹ کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں پر تاروں کے بچھے جال کس کیفیت میں، بجلی چوری کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں اور اس کے لیے لگائی گئی "کنڈیاں” بھی نظر آتی ہیں.
سب سے بڑھ کر اتنے بڑے پلازے میں، فائر الارمنگ سسٹم، فائر اسٹنگشورز اور فائر فائٹنگ کے آلات بھی نصب نہیں ہیں اور اگر فائر اسٹنگشورز ہیں تو ان کی ری فلنگ کیے ہوئے برس ہا برس بیت چکے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ آپ کھیل تو سکتے مگر آگ پر قابو نہیں پاسکتے. یہ انجمن تاجران حفیظ سینٹرز اور مالکان حفیظ سینٹرز کے کرنے کے کام تھے.
یہاں پر محکمہ تعمیرات اور بلڈنگز کی کاردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے کیا کر رہے ہیں.اتنے بڑے بڑے پلازوں میں حفاظتی اقدامات پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی.
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved