فرسٹ جنریش وار سے ففتھ جنریشن وار کا سفر ازقلم غنی محمود قصوری

0
33

فرسٹ جنریش وار سے ففتھ جنریشن وار کا سفر

ازقلم غنی محمود قصوری

لفظ جنگ سنتے ہی ذہن میں لڑائی مقابلے کا ذہن میں خیال آتا ہے
دو یا اس سے زیادہ افراد،ملک،قوم و گروہوں کے مابین مقابلے کو جنگ کہا جاتا ہے
مختلف ادوار میں جنگیں مختلف طریقوں سے لڑی جاتی تھیں جیسے جیسے وقت بدلتا گیا اسی طرح ان جنگوں میں بھی جدت آتی گئی پہلے زمانے میں لوگ پتھروں تیروں تلواروں سے لڑتے رہے اب جدید اسلحہ نے جگہ سنںھال لی ہے
جنگوں کی اقسام بارے دیکھتے ہیں کہ یہ کتنی قسم کی ہیں اور کس طریقے سے لڑی جاتی ہیں
1۔ فرسٹ جنریشن وار
یہ پرانے زمانے کی جنگیں ہیں جس میں انسان نے پتھر و ڈانگ سوٹے سے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا اور پھر تیر وغیرہ ان جنگوں کی زینت بنے ان جنگوں میں وہی جیتا جس کے پاس افراد زیادہ اور اس کے سپاہی دشمن کے سپاہیوں سے زیادہ طاقتور تھے
ان جنگوں کو فری انڈسٹریل وارز کا نام دیا گیا ہے

2 سیکنڈ جنریشن وار
یہ جنگیں لڑی تو تیر و تلوار سے گئیں مگر ان میں ایک اور جدت یہ آئی کہ دشمن سے زیادہ مایہ ناز اسلحہ بنایا گیا جیسے تیر و تلوار کے مقابلے میں منجنیق بنائی گئی تاکہ ایک ہی وقت میں کئی کئی سپاہیوں کا مقابلہ کیا جائے یعنی دشمن سے اپنے اسلحے کو زیادہ طاقتور کر گیا چاہے کمک کم ہی سہی مگر اسلحہ دشمن سے زیادہ اچھا اور کارگر ہونا چائیے
ان جنگوں کو ٹیکنالوجی وارز کا نام دیا گیا ہے

3۔ تھرڈ جنریشن وار
اس طریقے میں دشمن پر اچانک اس طریقے سے حملہ کیا جاتا ہے جس سے دشمن کو سنبھلنے کا موقع نا ملے جیسے ایک تیر بردار پر کلاشنکوف سے حملہ کر دیا جائے اور لڑاکا طیاروں سے پورے علاقے کو تہنس کر دیا جائے اس کا ایک مشہور طریقہ یہ بھی ہے کہ جب ہٹلر نے اپنے مخالفین کو اس وقت حیران کرکے سنبھلنے کا موقع نا دیا کہ جب ہٹلر کے طیاروں نے ساحل پر لینڈنگ کی اور دشمن کے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ مخصوص اڈوں کے بغیر ساحل پر بحری بیڑے کھڑے کر کے ان پر لینڈنگ کی جا سکتی ہے
ان جنگوں کو آئیڈیاز وارز کا نام دیا گیا

4۔ فورتھ جنریشن وار
اس طریقہ جنگ میں دشمن پر اس قدر زور دار حملہ کیا جاتا ہے کہ وہ سنھبل نہیں پاتا جیسے کہ امریکہ نے افغانستان پر ڈیزی کٹر بموں سے حملہ کیا اور ساتھ ہی زمینی حملے کیلئے اپنے دشمن کے دشمن کو ساتھ ملا لیا یعنی طالبان کے مقابل امریکہ نے شمالی اتحاد کو ساتھ ملا کر زمینی کاروائی کی جس سے طالبان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی جدید ایٹمی ہتھیار بھی اسی طریقہ جنگ میں شامل ہیں

5۔ ففٹھ جنریشن وار
یہ پانچویں نسل کی انتہائی خطرناک جنگ ہے اس میں دشمن اپنے دشمن کی عوام میں پروپیگنڈا کرکے اسی کے خلاف کر دیتا ہے اور وہ کام جو ہتھیاروں سے لیا جاتا تھا وہی کام دشمن کے لوگوں سے لیا جاتا ہے یعنی ملک دشمن کا ،کمپیوٹر لیپ ٹاپ دشمن کا انہیں چلانے والا فرد دشمن کا مگر اس فرد پر قبضہ کرکے اس سے اسے کے ملک کے خلاف کام لیا جانا اس کی بہترین اصلاح ہے
اسے سائبر وار فئیر کا نام دیا گیا ہے اس میں اپنے دشمن کے رازوں تک رسائی کے لئے کمپیوٹر،لیپ ٹاپ کو ہیک کرکے ڈیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے یہ انتہائی پیچیدہ جنگ ہے جو کہ عوام کے بل بوتے پر جیتی جاتی ہے
نائن الیون کے بعد امریکہ نے اپنی مظلومیت کا رونا رو کر افغانیوں کے خلاف یہ جنگ لڑی اور افغانستان کی عوام کو بڑی حد تک اپنے ساتھ ملانے اور طالبان کے خلاف کرنے میں کامیاب بھی رہا
اس جنگ کا مرکز عالم کفر کی طرف سے پاکستان کو بنایا جا رہا ہے جیسے فرقہ واریت کے نام پر فسادات،صوبائیت لسانیت کے نام پر بلوچوں ،سندھیوں کو اپنی ہی افواج کے خلاف کرکے قتل و غذرت گری کا بازار گرم کرنا
یہ ایک ایسا وار فیئر ہے جس میں افواج سے زیادہ عوام کا کردار ہوتا ہے
چونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ہر بندے کی سوشل میڈیا تک عام رسائی ہے اس لئے دشمن سوشل میڈیا کے ذریعے اس جنگ کو جیتنا چاہتا ہے اس لئے ہم پاکستانیوں کو انتہائی محتاط ہونا ہوگا اور اپنے بیگانے کی تمیز کرنی ہوگی مثلا آپ سندھ و بلوچستان کے مسلح لوگوں کو دیکھ لیجئے جو افواج پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں ان کو پہلے والے سندھ و بلوچستان بھی یاد ہیں جب بنیادی سہولیات نا تھیں مگر لوگ پھر بھی امن و سکون سے رہتے تھے مگر اب جب ان علاقوں میں تھوڑی ترقی ہوئی تو دشمن نے ان علاقوں سے بندے خرید کر ان کو پاکستان کے خلاف کرکے دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا
اگر دیکھا جائے تو 1971 میں بھی انڈیا نے اسی قسم کی جنگ کرتے ہوئے بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے خلاف کیا تھا اور ان کی تنظیم مکتی باہنی کو مسلح کیا اور فوج پر حملے کروائے اور الٹا خود کو ہی مظلوم ظاہر کیا
آج بدقسمتی سے یہ سائبر وار پاکستان پر مسلط کی گئی ہے جسے ہم سب نے مل کر لڑنا ہے اور دشمن کو ناکام بنانا اس کے لئے ہمیں سوشل میڈیا پر اپنے ملک ، فوج اور اداروں کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو نظر انداز کرنا ہوگا اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا کیونکہ پاکستان کی بقاء میں ہی ہماری بقاء ہے ورنہ شام ،افغانستان عراق ،لیبیا کا حال ہمارے سامنے ہے

Leave a reply