مقبوضہ کشمیرکے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے چین کے ساتھ الحاق کا عندیہ دے دیا

0
28

سری نگر:مقبوضہ کشمیرکے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے چین سے الحاق کا عندیہ دے دیا ،اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ زیر محاصرہ کشمیر کے وہ تمام لوگ جو بھارت کے ساتھ اپنے مستقبل پر یقین رکھتے تھے اب نئی دہلی کے بجائے چینی حکومت کے زیر انتظام آنے کو ترجیح دیں گے۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ‘دی وائر’ آن لائن کے میزبان کرن تھاپر کو انٹرویو کے دوران فاروق عبداللہ نے کہا کہ آج کشمیری خود کو بھارتی شہری نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ بھارتی شہری بننا چاہتے ہیں، وہ غلام ہیں اور چاہیں گے کہ چین حکمرانی کرے۔

انہوں نے کہا کہ وہ تمام کشمیری جو پاکستان میں شمولیت کے خلاف تھے اب بھارتی اور چینی بارڈر پر کھڑے ہیں، جبکہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور لداخ میں کی گئی تبدیلیوں کی وجہ سے چین پہلے ہی غصے میں ہے۔

بھارت نے گزشتہ سال آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا، جو بھارت اور کشمیر کے درمیان مشروط معاہدے کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔پاکستان اس معاہدے کو مکمل طور پر متنازع قرار دیتا ہے۔

 

 

فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہر کشمیری یہ یقین رکھتا ہے کہ نئے ڈومیسائل قوانین ہندو اکثریت کو خطے میں بڑھانے کے لیے ہیں، کشمیریوں اور باقی بھارت کے درمیان جو خلا پہلے سے تھا اب مزید بڑھتا جارہا ہے۔

دی وائر کی ویب سائٹ پر شام 5 سے 6 بجے کے درمیان نشر کیے گئے 44 منٹ کے انٹرویو میں نیشنل کانفرنس کے صدر اور ماضی میں تین بار جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہنے والے فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا یہ دعوی کرنا کہ کشمیری عوام نے اگست 2019 میں کی جانے والی اس ترمیم کو مان لیا ہے اور کوئی احتجاج نہیں ہوا یہ مکمل بکواس ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی فوجیوں اور دفعہ 144 ہٹادی جائے تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر نکلیں گے، نئے ڈومیسائل قانون کا مقصد وادی میں ہندوؤں کو لانا اور ان کی اکثریت کو بڑھانا ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام میں غصہ مزید بڑھا ہے۔

مرکزی حکومت خصوصا وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے بارے میں میزبان کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘کشمیری انتہائی حد تک مایوس ہیں، انہیں مرکزی حکومت پر اعتماد نہیں ہے، وہ اعتماد جس نے کشمیریوں کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑا تھا مکمل طور پر ختم ہوگیا۔

انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے قانون میں تبدیلی کی جانے والے دن 5 اگست 2019 سے 72 گھنٹے قبل نریندر مودی کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے متعلق بتایا کہ انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھنے اور آرٹیکل 370 اور 35 ‘اے’ کو نہ ختم کرنے کی یقین دہانی کرانے کے لیے ان سے ملاقات کی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ وادی میں فوجیوں کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟ کیا کسی فوجی کارروائی کا خطرہ ہے۔

فاروق عبداللہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے تاثرات سے انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ وادی میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کی وجہ سیکیورٹی وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دو آرٹیکلز کو کوئی خطرہ نہیں ہے، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وزیراعظم کی جانب سے انہیں گمراہ کیا گیا اور دھوکا دیا گیا۔انہوں مزید کہا کہ جب اگست 2019 میں اچانک آئین میں تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا تو نیشنل کانفرنس اور مرکزی دھارے میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کشمیریوں کی نظر میں اپنی عزت کھو بیٹھیں۔

سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ دو کشتیوں کے سوار کی طرح بن گئے تھے، بھارتی حکومت نے انہیں غدار کے طور پر دیکھا اور گرفتار کرلیا، کشمیریوں انہیں بھارت کے نوکر کے طور پر دیکھا اور ان پر ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘عبداللہ سچ کی خدمت کرو’ کے طعنے دیے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات نے انہیں بہت پریشان کردیا تھا، 7 یا 8 ماہ تک قید میں رہنے کے بعد کچھ حد تک کشمیریوں کی نظر میں ان کی اور دیگر جماعتوں کی ساکھ بحال ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ اب یہ سمجھ گئے ہیں کہ وہ بھارتی حکومت کے غلام نہیں۔

فاروق عبداللہ نے بتایا کہ دوسری تمام جماعتیں اگست 2019 کے معاملے پر ایک ساتھ گپکار اعلامیے پر جمع ہوئیں، جنہوں نے اس سال 22 اگست کو اپنا عزم دہرایا کہ کشمیریوں کا وقار بحال کرا کر رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب آرٹیکل 370 اور 35 ‘اے’ کو بحال کروا کر کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت واپس دلوانا ہے اور اس کے لیے وہ پرامن طریقے سے اپنی آخری سانس تک لڑیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ ہماری پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست سنے گی اور اسے مزید ملتوی نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے انٹرویو کے دوران سپریم کورٹ کے ججز سے درخواست کی کہ وہ یہ آئینی معاملہ جلد از جلد سنیں۔

Leave a reply