غلط کو غلط کہیں گے اور متحد رہیں گے انشاء الله – تحرير حمیرا راجپوت

0
27

‏حالات وواقعات کی موجودہ بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پر لکھنے سے پہلے چند باتوں کو مدنظر رکھ کر دھرانا ضروری سمجھتی ہوں کہ جیسا سب ہی جانتے کہ آجکل جنگوں کو طاقت کے زور پر لڑنے سے پہلے دنیا کو اپنا اچھا چہرہ دکھانا بھی ضروری ٹھہرتااور موجودہ دور ہی پروکسیز کی طاقت پر ملکوں کا معیار گرانا اور معیشت کو سنبھلنے نادیتے ہوئے چہره اتنا مسخ کردینا کہ دوسرے ممالک بھی بڑھ جڑھ کر حصہ لیں اور اسی ایماء 3طرح کا فائدہ حاصل ہوتا ہے
1 دنیا کی نظر سافٹ کارنر ہوکر اپنی پاور دکھانےکااثر ملتا ہے
2 دوسر ے ممالک پر اپنی سپرویژن دکھا کر قدر بڑھانےکاموقع
3 دوسرے ممالک کی طاقت اور پیسہ استعمال ہوجانے سےاپنے ملک کا پیسہ بچالیاجاتا ہے اب سب ہی جانتے کہ اچھےحالات وترقی میں بہتری سے وہی روکتے ہیں جو دشمن ہوتے ہیں اور اسلام مخالف قوتیں پاکستان مخالف طاقتیں ہر کمزور پہلو سے فائده اسی طرح اٹھاناچاہتی ہیں جس طرح تاریخ کا حوالہ دوں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی منافقین کا سامنا رہا یاصلیبی جنگیں تقریباً سن 1095 سے 1230 کے درمیانی عرصہ میں لڑی گئیں یاورلڈ وار 2 ہمیشہ سے میر جعفر و میر صادق جیسے لوگوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کئے گئے ہیں بالکل اسی طرح بہانہ کچھ اور نشانہ کچھ کی بنیاد بنا کر جب سے معرض وجود ھمارا ملک آیا ہے دشمنان نوجوان اسلام کو بھٹکانے اخلاقی دینی اور اصلاحی معیار گرانے کے پیچھے پڑے ہیں کبھی جذبات کے نام پر بھٹکا کر بے چینی اور نقصان کا سبب بنا دیا جاتا ہے کبھی ڈس انفاریشن کی جنگ سے اب جب دھشت گردی الحمد الله 2001 سے 2012 والا وه اثر نہیں رکھتی اور جو ازلی دشمنوں کو15اگست کے دن ضرب لگ چکی اس تکلیف کا اثر ہے کہ یہاں معاشرے کے ایک کمزور پہلو کو اٹھا کر اپنے مقاصد کا حصول شروع کردیا گیا اور مستقبل میں بھی کمزور پہلو پرہی وار کیا جائے گا کیونکہ براہ راست ون آن ون الجھنے کے باجود اتحادیوں کی طاقت مدد کا ہونا سود مندی اور قابل یقین جیت سمجھی جاتی ہے اور انہیں واقعات کا فائده اٹھاکر اب مردو خواتین سوشل میڈیا یا عام زندگی کے حصوں میں بٹے جارہے ہیں یا بانٹ دیا گیااور یہاں آپس کے الجھاؤ سے فائدہ وه اٹھانا چاہتے ہیں جو عوت کیلئے صرف8 مارچ کو نظر آتے ہیں معاشرے کے اس بگاڑ میں سب سے بڑی کمزروی میڈیا کی ہے جو اپنی ریٹنگ کے چکر اسلامی اور اصلاحی پروگرامز اور اچھے مقرررین ہر مسلک کے وه عالم جو تفرقہ کی بات نہیں کرتے انہیں موقع کیوں نہیں دیتے کہ آئیں اور پروگرامز کا حصہ بنیں معاشرے کی اصلاح کیلئے اصلاحی پروگرامز صرف رمضان ٹرانسمشن کا حصہ نہیں 24 گھنٹے میں کم از کم ایک گھنٹہ ضرور ایسے پروگرامز کو دینا ہی ہوگا یہاں والدین پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہے کہ وه بچے یا بچی کی خوشی ٹکٹاک جی آفت سے اصلاح کے دائرے تک رکھیں وہیں حکومت وقت بھی اگر اس ٹکٹاک کو بند نہیں کرتی تو خصوصی اس کے قوانین اور بھاری جرمانے عائد کرے تاکہ کوئی بے حودگی اور بگاڑ کے چانسز کم سے کم تر کئے جاسکے اور جذباتی حضرات میں شامل ہونے سے بہتر کہ جہاں جس کی غلطی ہو وہاں اسی کو قصوروار ٹھہرائیں بجائے کسی ایک کی طرف داری پر اپنا موقف دیکر اس پر قائم ہوجائیں حقیقت کھلنے پر بجائے عزیمت اٹھانی پڑے اور قوم کو اصلاح بھرا کچھ کہہ کر صحافت کا معیار بلند کرنے کو اپنے موقف پر انا بنا کر کھڑے رہنا انتہائی افسوس کا مقام بنتا ہے اور یہی بگاڑ کی وجوہات بھی بنتی ہیں آخر میں ایسے جذباتی حضرات کو سانحہ موٹروے یاد کروادیتی ہوں جس پر اب تک کسی نے موازنہ نہیں کیا کہ وہ بھی ایک عورت ہی تھی لہذا مردو خواتین کو معاشرے کے چند حیوانوں کی وجہ سے ملک اور معاشرےسےمتنفر کرنے والے اپنی توانائی معاشرے کے سدھار کیلئے استعمال کریں الحمد الله نامم بے چین ہونگے نامتنفر نا کسی کے غم تکلیف میں استعمال ہوکر ملک کا چہرہ بگاڑیں گے اللّه پاک قوم کو اپنے اسلامی معاشرے پر فخر سے کیساتھ ھمیشہ متحد اور ملک کوکام یابیوں کی جانب گامزن رکھے🤲آمین
تحریر…
‎@humiraj1

Leave a reply