گلیاں ہو جاون سُنجیاں — حسام درانی

0
69

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنے اتار چڑھاو ہیں کے سیاست کے طالبعلم سیاسیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی اس سوچ میں ہوتے ہیں کے کونسا سسٹم ملک عزیز میں چل رہا ہے، برصغیر میں ایک وقت میں جہاں گاندھی جیسا زیرک سیاست دان تھا تو دوسری جانب قائد اعظم سواسیر کی شکل میں سامنے تھے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا رہا انکے پیشرو اس قابل ہی نا تھے کے وہ گاندھی یا قائد کی وراثت کو آگے لے جاتے جسکا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

خیر بات کرتے ہیں پاکستان کی تو حالیہ لاٹ میں موجود سیاست دانوں کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دیکھانے کے برابر ہے مطلب ” اللہ دے اور بندہ لے”

پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑا کردار ہمیشہ سے ہے عدلیہ کا رہا ہے، بطور سیاست کے طالبعلم کے احقر ہمیشہ عدلیہ کو ایک ایسے مقام پر دیکھتا رہا جس کے باے میں بات کرنا یا غلط سوچنا بقول لکھاری

” اس مقام پر فرشتوں کے پر جلتے ہیں”

لیکن 1947 سے لے کر تا دم تحریر الحمداللہ عدلیہ نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کو ہی پاکستان کی سیاست میں رائج کیا، اور ہمیشہ وقت کے بادشاہ کا ساتھ دیا جیسے ایک وقت میں یورپ چرچ کے طابع تھا ویسے ہی مقننہ ہمیشہ سے ہی عدلیہ کے طابع رہی بلکہ حالیہ دنوں میں تو کسی بھی قسم کی قانون سازی کی سہولت بھی مقننہ سے لے کر عدلیہ نے اپنے پاس رکھ لی اور دے پر دے فیصلوں کے بعد یہ کہتے نظر آئے کے اگر ہمارا کوئی فیصلہ غلط تھا تو اسکو درست کرنے کا ہمیں پورا اختیار حاصل ہے، خیر” دروخ با گردن راوی” سانوں کی تے تینوں کی۔۔۔

ویسے آجکل جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں وہ بطور صحافی یا ٹی وی پروگرام پروڈیوسر گزشتہ 9 سال سے دیکھ رہے ہیں، اگر سہوا کچھ قلم سے الفاظ تحریر بھی ہو جائیں تو ڈر لگ جاتا ہے کے کہیں تو ہین عدالت کے مرتکب نا ہو جائیں، کہیں کسی ادارے کا فون نا آ جائے کہیں ہتک سیاسی کے ذمرے میں نا آ جائیں اور اگر ان تما م سے بچ جائیں تو توہین مذہب اور توہین ریاست کی انتہائی گہری اور لمبی چوڑی کھائی سامنے نظر آ رہی ہوتی ہے۔۔

میرا یار بوٹی اکثر مجھے کہا کرتا ہے کے اگر تم چاہتے ہو کے لوگ تمہاری بات سنیں تو کچھ نا بولو، چاہتے ہو کے لوگ تمہارے کہے پر عمل کریں تو کچھ نا لکھو، پہلے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ بات کی سمجھ آ تی جا رہی ہے، لیکن میرا یار خاص ایجنٹ ایکس ہمیشہ ایک ہی بات کرتا ہے کے انسان جب تک زندہ ہے اسکو کھرک رہتی ہے ۔۔۔۔ آگے آپ سب سمجھ دار ہیں
بات تو کہیں کی کہیں نکل گئی ، قصہ مختصر یہ کے ” گھسن نیڑے یا رب نیڑے” ویسے تو اس وقت ملک میں عدلیہ ہی سب سے ہاٹ فیورٹ ہے یار لوگ اسکی کے فیصلوں پر لڈیاں ڈالتے ہیں اور ساجا، ماجا گاما اپنا ساڑ نکالتے ہیں، لیکن جو بھی ہے ہر دو فریق جو کبھی فاعل، یا مفعول کی حالت میں رہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد اپنا بابا اوپر رکھنے کے لئے تکڑی والے بابا کے پاس پہنچ جاتے ہیں اب تکڑی والے بابا کی مرضی وہ جسکی روٹی میں سے حصہ نکال کر خود کھا لے یا دوسرے پلڑے میں رکھ دے، اس معاملے میں کبھی میرا یار بوٹی خوش ہوتا ہے یا پھر میرا یار ایجنٹ ایکس نہال، لیکن ہر دوصورت میں ہمارے پاس بیچنے کے لئے منجن وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔

لیکن اگر بات حق و سچ کی ہو تو میرا ہیرو تمہارا ولن ، مطلب جو چیز میرے حق میں ہو وہ ہی سچ ہے اور باقی سب جھوٹ، اب اگر حالیہ حالات کو دیکھا جائے تو تمامتر ملکی سیاسی جماعتیں ، تمامتر ہائیکورٹس و سپریم کورٹس کی بار کونسلز ، اور 12 ججز ایک جانب لیکن ہم خیال تکڑی والے بابے سمیت ایک سیاسی پارٹی ایک جانب۔

2018 کے اوائل میں بھی حالات ایسے ہی تھے جب اس وقت کے بابے نے چن چن کر تمامتر ممکنہ رکاوٹوں کو یا تو جیل کی ہوا کھلائی یا انکو اس قابل ہی نا چھوڑا کے وہ کسی ایک مطلب ایک کے مقابلے میں نا آ سکیں ، وہ سابقہ بابا جی اپنے ہر فیصلہ کے بعد کسی کوفیض یاب کرنے کے بعد کہا کرتے تھے کے انکے فیصلے تاریخ کا حصہ بنتے ہیں اور جب کوئی ناہنجار انکے سامنے انکے ہی کسی پرانے فیصلہ کا حوالہ دیا کرتا تھا تو اسکی کھنچائی کر دی جاتی تھی کے تم ہوتے کون ہو میرے سابقہ فیصلے کو میرے سانے دہرانے والے اس وقت اس فیصلہ کی ضرورت تھی اب نہیں

ایک وہ وقت تھا اور اب ایک یہ وقت ہے جب قاضی القضاء اس بات کو خود ہی دہرانے پر مجبور ہو گئے ہیں کے وہ نہایت پرہیزگار، عبادت گزار و متقی ہیں وہ جو بھی فیصلہ کریں وہ وقت کی ضرورت ہے ابھی حالیہ دنوں میں جب انکو کہا گیا کے جناب اپکا سابقہ فیصلہ یہ تھا تو انہوں نے فرمایا بے شک وہ فیصلہ غلط تھا لیکن وہ اس وقت ضروری تھا اور اب جو فیصلہ دے رہا ہوں وہ اس وقت کی ضروت ہے۔۔۔
بقول میرے منشی کے ” بگے نک آلے کتورے دی جوٹھ حلال اے”

اور تکڑی والے بابا جی کے حالیہ معرکتہ آلارا فیصلہ کے بعد سامنے آئی۔۔۔

اب بابا جی نے بنواس لے لیا ہے اور سوہنا ہر سو یہ گاتا پھر رہا ہے ۔۔

گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے

Leave a reply