گیم از اوورو…..تحریر: نوید شیخ

0
50
کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے، تحریر: نوید شیخ

حکومت جا رہی ہے کہ نہیں اس سے ہٹ کر ایک چیز جو کنفرم ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کے ستارے گردش میں ہیں ۔ حالانکہ بہت سے ستارہ شناس اور علم الاعداد والے اس بات سے متفق نہیں مگر کپتان کے پاس ایسا لگ رہا ہے کہ باولنگ کی تمام ورائٹی ختم ہو چکی ہے ۔ وہ جتنے تجربے اور زور لگا سکتے تھے لگا چکے ہیں ۔ اپوزیشن نے بڑی کامیابی ان کی ہر
۔۔ ان سوئنگ ، آؤٹ سوئنگ، ریسورس سوئنگ ، یارکر اور باونسر کا مقابلہ کیا ہے ۔ یوں جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے میچ کپتان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔ فی الحال بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ کپتان نے جیسے پہلے ایک اہم تعیناتی کے موقع پر مخصوص تاریخ کو ہی یہ کام کرنے کو بہتر سمجھا تھا ۔ اب بھی کچھ کے خیال میں کپتان تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی کسی شُب گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں ۔

مگر کل جو اہم تعیناتی کے حوالے سے انھوں نے قوم کے سامنے اپنے دل کی بات کہہ دی ہے ۔ وہ صاف اشارہ ہے کہ کپتان اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ نہ ہی وہ عثمان بزدار کی قربانی دینے کو تیار ہیں نہ ہی وہ سب سے سینئر کو تعینات کرنے کو راضی ہیں ۔ اس سے پہلے ہمارے کپتان جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو بھی اپنے جلسے میں بیان کرچکے ہیں جبکہ گزشتہ ہفتے جو پاک فوج اور اہم عہدوں پر تعینات شخصیات پر پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کی گئی ۔ پھر نیوٹرل ہونے کو گالی بننا ۔ تو یہ تمام چیزیں بہت کچھ بیان کر رہی ہیں کہ موڈ چل کیا رہا ہے ۔ ۔ اس حوالے سے گزشتہ روز مریم نواز نے موقع دیکھ کر اچھی پوائنٹ سکورننگ کر لی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کوئی آپ کی گنتی پوری کرکے دے، آپ کو اکیلا میدان میں رکھے، میڈیا کو مینج کرے کوئی یہ کرنے پر تیار نہیں تو آپ جانور کہہ رہے ہیں۔ نیوٹرل ہونا آئین کی پاسداری ہے،  یہ تو اچھی بات ہے کوئی آئین کی پاسداری کررہا ہے تو ویلکم کرنا چاہیے۔۔ بہرحال وزیر اعظم کی کرسی میں طاقت تو بہت ہوتی ہے اور اب محسوس یہ ہو رہا ہے کہ وہ اس طاقت کا اندھا دھند استعمال کرنے والے ہیں ۔ بس یہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس گزرنے کی دیر ہے ۔ ۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ جس تواترسے ان کے مشیر رنڈی اور دلے لفظ کی تشہیر کر رہے ہیں ۔ پنجابی زبان کو بدنام کررہے ہیں۔ اس سے کپتان کے میرٹ کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

۔ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا سچاجذبہ اگر اُن میں ہوتا تو اپنے اِس بازاری ترجمان کو فوری طورپر وہ فارغ کردیتے۔ ۔ دراصل کپتان کی غلطیاں اور کوتاہیاں ایک طرف اصل مسئلہ ان کی ضِدوں اور جھوٹی اناؤں کا ہے ۔۔ یہ ضد اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انتخابی جلسوں میں الیکشن کمیشن کے روکنے کے باوجود، نوٹس جاری کرنے کے باوجود کپتان شرکت کر رہے ہیں اور پھر جو لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ احتجاجی تحریک کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے۔ اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھنا ، اچھا سمجھنا ، باقی سب سے بہتر سمجھنا ایک بہت بڑی بیماری ہے ۔ جس کا اس وقت یہ حکومت اور حکمران شکار ہیں ۔ کیونکہ تاریخ ہو ، فلسفہ ہو ، آئین ہو ، قانون ہو ، جمہوریت ہو یا مذہب ہو ہر چیز پرجب آپ خود ہی اتھارٹی ہوں تو پھر کسی کا کیا مشورہ سننا یا بات ماننی ۔ یہ ڈکیٹیٹر شپ نہیں تو کیا ہے ۔ بلکہ آئین و قانون کی خلاف ورزیوں سے لگ رہا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم نہیں کپتان بادشاہ بنے ہوئے ہیں ۔ کون جیتے گا یا کون ہارے گا یہ اللہ بہتر جانتا ہے پر اگر تمام تر حالیہ واقعات کو سامنے رکھ کر سیاسی بھونچال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو مختصراً یہ ہی سمجھ میں آتاہے کہ ہٹ دھرمی جیت رہی ہے۔ جمہوریت ہار رہی ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہوس اقتدار جیت رہی ہے امن، خوشحالی کی خواہش دم توڑ رہی ہے۔ ۔ بہرحال کپتان کا تمام بیانیہ اور تقریریں بحیرہ عرب میں غرق ہوتی دیکھائی دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ یہاں سے تڑی لگاتے ہیں آگے سے بھی ویسا ہی ردعمل سامنے آجاتا ہے ۔

۔ اس حوالے سے رمیش کمار نے کہا ہے کہ حکومت کی پارٹی میں باغی ارکان کی تعداد 35 ہو چکی جبکہ منحرف ارکان میں سے کوئی بندہ واپس نہیں جائے گا۔ ہم میں سے زیادہ تر سینئیر سیاست دان ہیں کوئی ایسی ویسی صورت حال ہوئی تو نشست سے استعفیٰ دے دیں گے۔۔ احمد حسین ڈیہڑ نے کہا مجھ پر پیسے لینے کا الزام لگایا گیا میں نے 40کروڑ روپے کی زمین مفت ریسکیو 1122 کو دے دی جبکہ میرے گھر پر غنڈہ بریگیڈ سے حملہ کرایا گیا۔ بات عزت کی ہے،کیا باپ ایسے ہوتے ہیں کہ بیٹی کے گھر میں بندے گھسا دیں۔۔ نور عالم خان نے کہا ہمیں گالیاں دینے کے بعد حکومت کس منہ سے ہماری واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے، عمران خان اگر انسان کو انسان کی نظر سے دیکھتے، شیرُو کتے کی نظر سے نہ دیکھتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔۔ منحرف اراکین کے درعمل سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بات صرف عزت کی ہے ۔ جو کپتان سے کسی اور کو تو دور کی بات ۔۔۔۔ اپنے ہی ایم این ایز کو نہیں نہیں دی گی ۔ یوں اب وہ بدلہ لینے کے لیے کپتان کی عزت تار تار کرنے پر تلے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ ۔ میرے خیال سے حکومت اگر ہوش کے ناخن لے اور شیخ رشید ، فواد چوہدری ، شہباز گل جیسوں کو کچھ عرصے کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں پر یورپ بھیج دے تو معاملات زیادہ آسانی سے حل ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ چیز واضح ہوگی ہے کہ اب فون کال کسی کو نہیں جائے گی جو کرنا ہو گا کپتان کو اپنے زور باوز پر کرنا ہوگا ۔

۔ پھر چوہدری نثار کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بے پرکی اڑائی گئی تھی کہ وہ پتہ ن ہیں کتنے ایم این ایز اور کتنے ایم پی ایز کے ساتھ 27کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلیں گے تو اس حوالے سے ان کی اپنی جماعت کے وفاقی وزیرغلام سرور خان نے کہا ہے کہ نئے وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے چوہدری نثار علی خان سے متعلق خبریں بلاجواز ہیں ۔ ایسی خبریں بے مقصد اور بے بنیاد ہیں ۔۔ یعنی چوہدری نثار والا فارمولا بھی نہیں لگ رہا ۔ منحرف اراکین کی گھر واپسی بھی نہیں ہو رہی ۔ خرید وفروخت کا کوئی ثبوت بھی سامنے نہیں لایا جا رہا ۔ اس عدم اعتماد کو بیرونی سازش ثابت کرنے کے تمام فارمولے بھی ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ دنیا کیا ہر پاکستانی جانتا ہے کہ چلو بھٹو نے تو ایٹم بم بنایا، اسلامک بلاک بنانے کی کوشش کی ۔ عمران خان نے امریکی مفادات کو کون سی زک پہنچائی ہے جو وہ کپتان کے دشمن ہوجائیں ۔ الٹا اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوا کر ریاست کے پیروں میں بیڑیاں ڈلوادی ہیں ۔ وزیر اعظم کے خلاف جب ان کی جماعت کے ارکان کی بغاوت سامنے آ چکی ہے، اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑنے کے فیصلے کر رہے ہیں تو پھر پتا نہیں کیوں وزیر اعظم اور ان کے ساتھی ابھی تک تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا یقین کیے بیٹھے ہیں۔

۔ اس حوالے سے اپوزیشن کی پلاننگ سامنے آگئی ہے کہ پہلے وفاق،پھر پنجاب،چیئرمین سینٹ اورآخرمیں خیبر پختونخوا حکومت گرائینگے۔ جبکہ مخبریاں یہ بھی ہیں کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو بھی ہٹایا جائے گا ۔ ۔ پھر چڑیل نے گن کر بتایا ہے کہ ایک بال پر تین وکٹیں گرانے والے کی اپنی پچاس وکٹیں گر چکی ہے۔ جبکہ یہ مزید گرتی جا رہی تھیں ۔ یہ تو دوسری جانب سے کہا گیا کہ بھائی بس ۔۔۔ ہمارے پاس گنجائش ختم ہوچکی ہے کہ اور لوگوں کو اپنی پارٹی میں نہیں رکھ سکتے ۔ ۔ اس لیے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ ہی اس وقت کیا جب انھیں یہ پورا یقین ہو گیا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے اور ان کے ووٹ ڈلوانے میں کامیابی سے ہم کنار ہونگے۔۔ عقل تو یہ ہی کہتی ہے کہ کپتان اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں ۔ اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیں۔ لیکن وزیر اعظم اس طرح کا جمہوری روایات اور اقدار کا حامل فیصلہ کرنے کے بجائے اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور انا پرستی کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں ۔ ۔ حکومت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح پر تکیہ کیا ہوا ہے میری جتنی بھی قانونی ماہرین سے بات ہوئی ہے ان کی رائے میں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہ صرف ووٹ ڈال سکتے ہیں بلکہ ان کے ووٹ گنتی میں شمار بھی ہو سکتے ہیں۔ ہاں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد عمران خان کو بطور پارٹی لیڈر یہ اختیار ضرور حاصل ہے کہ وہ ان ارکان کے خلاف پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ ڈالنے کی بنا پر defection clause لاگو کرنے کے لیے سپیکر کو خط لکھ سکتے ہیں۔ سپیکر اس خط یا یادداشت کو بنیاد بنا کر الیکشن کمیشن کو ان ارکان کی نااہلی کے ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔

۔ اسکے بعد بھی الیکشن کمیشن کا یہ اختیار ہے کہ وہ اس ریفرنس پر کیا فیصلہ دیتا ہے کہ ان ارکان کو نا اہل قرار دیتا ہے یہ ان کو بدستور اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے کی ہدایت کر تا ہے۔۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کو یہ والے قانونی ماہرین کی شاید سہولت میسر نہیں ہے ۔ اس وقت وہ صرف وہ سننا چاہ رہے ہیں جو ان کے کانوں کو اچھا لگے تو ان کے اردگرد لوگ بھی وہ ہی کچھ بتا یا سنا رہے ہیں کہ جس سے کپتان خوش رہے اور بدلے میں کہے شاباش میرے کھلاڑیوں ۔۔۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ گیم از اور

Leave a reply