غریب کا مقام اور اسلام کے احکام تحریر : انجینیئر مدثر حسین

0
28

اسلام اپنے پیروکاروں کو احساس کا درس دیتا ہے. اس زمرہ میں مختلف عوامل سے کمزوروں کا احساس کرنے کا درس دیتا ہے. کبھی صدقہ، کہیں خیرات کہیں فطرانہ تو کہیں زکواۃ غرض مختلف پہلو َاس احساس کے ہیں. حالیہ قربانی جیسا عظیم شعار_ اسلام اسی کی ایک کڑی ہے. جس میں 1 حصہ غریبوں کے لیے مختص کر کے احساس دلایا گیا کہ امیروں کی کمائی میں غریبوں کا رزق موجود ہے. اللہ کریم نے ایک نظام بنایا ہے. انہی عوامل میں امت کے لیے فوائد بھی رکھ دئیے تاکہ غریبوں کی امداد کا سلسلہ نہ رکے. جیسا کہ نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا.
صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے. تو کسی کی بلائیں ٹلتی کسی کا پیٹ پلتا ہے.
معاشرے کا سب سے کمتر دیکھا جانے والا یہ طبقہ حقیقت میں اس کا زمہ دار خود تو نہیں. یہ میرے رب کی رزق کی تقسیم ہے کسی کو دے کر آزما رہا ہے تو کسی کو محروم رکھ کر. یہ اسی کی حکمتیں ہیں.
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا
اور اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دے.
تو یہ تو اللہ کی تقسیم ہے.
اسی طرح زکواۃ دیجیے اور اللہ سے تجارت کا عہدہ پائیے.
مال کی پاکیزگی بھی حاصل کیجیے. زکواۃ کو مال کی میل کچیل قرار دے کر اپنے مال کو پاک کرنے کا حکم دیا گیا.تو کسی کا مال پاک ہوا اور کسی کا پیٹ پال دیا گیا.
الغرض کمزور طبقے کے فروغ کے لیے جو قوانین و ضوابط اللہ رب العزت نے اس دین اسلام میں مقرر فرماے ان کی مثال کہیں نہیں ملتی.
غریب زمانے میں تو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس کے بڑے درجے ہیں.
جیسا کہ نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا. جو اللہ کے دیے تھوڑے رزق پر راضی ہو گیا. اللہ کریم کل بروز قیامت اس کے تھوڑے اعمال (صالح) پر راضی ہو جاے گا.
غریبی میں صبر بہت مشکل لیکن بہت کامل عمل ہے جو بندے کو رب سے بلاواسطہ ملاتا ہے.
دوسری جانب جو رب العالمین کے دئیے ہوے سے خرچ نہیں کرتے ان کے لیے سخت وعید بھی ہے.
غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھنا کفار کا طریقہ ہے اور اللہ کریم غریبوں کے زریعے امیروں کو آزماتا ہے اللہ رب العزت نے اس بارے کچھ ہوں سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا
وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَاؕ-اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ(۵۳)
یہاں آیت کی پہلے حصے میں فرمایا گیا کہ *اور یونہی ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی* یعنی مالدار کی غریب کو لیکر آزمائش کی جاتی ہے پہلی آیت کے حوالے سے یہاں فرمایا گیا کہ غریبوں کے زریعے امیروں کی آزمائش کی جاتی ہے صحابہ کے ساتھ بھی یہ ہوتا تھا کہ مالدار کفار غریب مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے اور ان کا مذاق اُڑاتے اور اسلام کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اسلام سچا ہے تو مسلمان فقیر کیوں ہیں؟ تو یاد رکھیں غریب کو حقارت سے دیکھنا کفار کا عمل ہے. اپنے معاشرے میں توازن لانا ہماری زمہ داری ہے اسلام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی اسی لیے قرار دیتا کہ اپنے ساتھ موجود غریبوں اور کمزوروں کی مدد کی جاے یہ مسلمان کی شان ہے. غریبوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ مشاہدے کی بات ہے غریب ہوتے دیر نہیں لگتی. دروازے کے باہر غریب اور اندر دینے والا امیر ہوتا ہے میرا رب بڑا بے نیاز ہے ہو چاہے تو پل میں دروازے کا رخ بدل ڈالے (ضرورت مند کو خوشحال اور دینے والے کو ضرورت مند کر دے) سوچنے کی بات ہے دروازہ تو ایک ہی ہے. رخ بدلتے دیر نہیں لگتی. کب وہ جھکے ہوے ہاتھ کو پھیلا کر مانگنے والا بنا دے. یہ اس اللہ کریم کے فیصلے ہیں اور وہ اپنے فیصلوں میں بے نیاز ہے. اس لیے غریبوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے.
احساس کیجیے غریب بھی میرے رب کی مخلوق ہے. اور اسلام ہمیں اس مخلوق سے پیار سے پیش آنے اور ان سے نرمی کرنے ان کا احساس کرنے کا درس دیتا ہے. اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

@EngrMuddsairH

Leave a reply