ملک کو درپیش دہشت گردی اور دیگر سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے میں پاک فوج کا کردار
بقلم: شکیل احمد رامے
گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کو درپیش دہشت گردی اور دیگر سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے میں پاک فوج کا کردار مٹی کے ایک ایک ذرے سے عیاں ہے۔ موجودہ امن کا تناظر اس کا گواہ ہے۔ بلاشبہ یہ ہماری آنے والی حکومتوں کی مسلسل اور عوامی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ آپریشن ضرب عضب جنرل راحیل شریف کے دور میں شروع کیا گیا تھا لیکن ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ادارے کی مشترکہ کوششوں سے اسے دیرپا کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جنرل باجوہ، جو آرمی چیف کے طور پر اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہیں، نے یہ عہدہ 6 سال قبل سنبھالا تھا۔ اپنے دور میں، انہوں نے دہشت گردی، ہائبرڈ جنگ اور سی پیک کو محفوظ بنانے سمیت کئی محاذوں پر لڑنے میں پاکستان کی قیادت کی۔
اس طرح، سیکورٹی چیلنجوں کے تناظر میں ان کے دور کا تجزیہ کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ملک کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے کا کردار کتنا بہترین تھا اگرچہ، ان کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن میں چار اہم ترین کارناموں پر بات کریں گے
سب سے پہلے، ان کی کمان میں پاک فوج نے ردالفساد کے نام سے ایک جامع انسداد دہشت گردی آپریشن شروع کیا۔ یہ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن ہے، جو 2017 سے جاری ہے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عام شہریوں کے ساتھ مل کر اور قریبی تعاون سے کام کر رہے ہیں۔ پروگرام کے اہم عناصر ہیں، طاقت کے استعمال کا حق ریاست کے پاس ہے، ڈبلیو بی ایم آر کے تحت مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانا، دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ، پرتشدد انتہا پسندی کا خاتمہ، اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں فلاحی اقدامات۔ یہ سب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں انتہائی عمدہ طریقے سے کام ہوا
ملٹری اور ایل ای اے نے 3 لاکھ سے زائد آئی بی اوز آپریشن کیے، غیر قانونی ہتھیار اور گولہ بارود ضبط کیا۔ فوج نے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو بھی پکڑا اور دہشت گردوں کی سزا کو یقینی بنایا۔ ایک اندازے کے مطابق دہشت گردوں کو سزا سنائے جانے کی شرح 70 فیصد تھی۔ پاک فوج نے تقریباً 40 ہزار پولیس اہلکاروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی استعداد کار بڑھانے کے لیے تربیت بھی دی۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ سیکیورٹی کے بہتر ماحول نے بین الاقوامی برادری خصوصاً سرمایہ کاروں اور تاجروں کا اعتماد بڑھانے میں بھی مدد کی۔ اس نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد کی جس کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔
دوسرا، فوج نے ففتھ جنریشن وارفیئر (FGW) یا ہائبرڈ وارفیئر (HWF) سے لڑنے کی صلاحیتیں بنانا شروع کر دیں۔ پہلا مرحلہ ففتھ جنریشن وارفیئر اورہائبرڈ وارفیئر کے دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنا تھا۔ دوسرا مرحلہ جنگ میں مؤثر طریقے سے قیادت کرنے کے لیے انسانی وسائل کو تربیت دینا تھا۔ تیسرا مرحلہ وسائل کی تعیناتی اور انسانی وسائل کو زمینی حقائق سے واقف کرانا اور حقیقی وقت کی لڑائی میں مشغول ہونا تھا۔ اس کی فوری طور پر ضرورت تھی، کیونکہ پاکستان ففتھ جنریشن وارفیئر اورہائبرڈ وارفیئر کے بدترین متاثرین میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے دشمنوں نے ہر طرف سائبر ویئر اور پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے آغاز نے پاکستان اور چین کے مخالفین اور دشمنوں کو مزید اشتعال دلایا اس طرح انہوں نے پروپیگنڈا، سائبر وار اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں تیزی لائی۔ خوش قسمتی سے، پاکستان ففتھ جنریشن وارفیئر اورہائبرڈ وارفیئر کے بہتر اور فعال نظام کی وجہ سے پروپیگنڈے اور سائبر جنگ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا۔
تیسرا، افغانستان سے امریکی افواج کے اچانک انخلا نے خطے کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی۔ فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کو زیادہ خطرہ لاحق تھا۔ پاکستان کے دشمنوں اور مخالفین نے اسے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کا اچھا موقع سمجھا۔ ان کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر پاکستان کو لپیٹ میں لے لے گی۔ تاہم، بروقت اقدامات اور انسداد دہشت گردی کے بہتر نظام اور ردالفساد جیسے اقدامات نے صورت حال پر قابو پانے میں پاکستان کی مدد کی۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے سے (جو کہ پاکستان کی مسلح افواج نے 4 سال میں مکمل کیا تھا) نے بھی سرحد پار دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے میں مدد کی۔ اگرچہ پاکستان نے دہشت گردی کے کچھ واقعات دیکھے لیکن بڑی حد تک صورتحال قابو میں رہی۔ اب پاکستان نئی ضروریات اور ضرورت کے مطابق انسداد دہشت گردی کے طریقہ کار کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چوتھا، پاکستان کی مسلح افواج نے بھی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلح افواج نے تمام کارروائیوں کو نافذ کیا، جو انہیں تفویض کیے گئے تھے۔ فوج نے ڈی ریڈیکلائزیشن کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ پیغام پاکستان ایک اور بہترین اقدام ہے، جس نے بنیاد پرستی کو کم کرنے میں مدد کی۔
پانچواں، سی پیک ایک بہت بڑا پروگرام ہے، جو پاکستان کے معاشی اور سماجی منظر نامے کو بدل سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی، ایک ایسے وقت میں جب پاکستان متعدد مسائل میں گھرا ہوا تھا اور ہمارے دوست، خاص طور پر جنگی دہشت گردی کے اتحادی ہمیں چھوڑ گئے۔ بلکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اس تناظر میں چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی۔ یہ پاکستان کے مخالفین کے لیے بُری خبر تھی، اور انہوں نےسی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے متعدد پروگرام/کارروائیاں شروع کیں۔ پاکستان کی مسلح افواج نے سی پیک کی اہمیت اور سیکورٹی ضروریات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر سیکورٹی کا ایک جامع فریم ورک تیار کیا۔ سیکورٹی فریم ورک کے مالک، مسلح افواج اور LEA نے سی پیک کے پہلے مرحلے کے دوران سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری کا کامیابی سے دفاع کیا۔
اتنی بڑی کامیابی کے باوجود، کچھ ایسے شعبے ہیں، جن کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح نئی قیادت کو ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر، اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جو سی پیک کے پہلے مرحلے سے بالکل مختلف ہے۔ اس طرح سی پیک کے دوسرے مرحلے کی ضروریات کے مطابق سیکیورٹی فریم ورک کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ عالمی حالات بھی بہت تیزی سے بدل رہی ہیں اور بہت سے بڑے کھلاڑی سی پیک کے حق میں نہیں ہیں۔ روس اور یوکرائن کا بحران صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا بھی علاقائی صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہا ہے۔ اس تناظر میں سی پیک کے لیے حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔