جنریشن گیپ،دنیا کا بڑھتا ہوا ایک مسئلہ .محمد عتیق الرحمن گورائیہ

احمد پچھلے کافی دنوں سے پریشان تھا کہ وہ والدین سے بات کرے یانہ کرے ۔ اسی سوچ نے اس میں چڑچڑا پن پیدا کردیا تھا ۔ بات یہ تھی کہ وہ انجینئرنگ کے شعبے میں جانا چاہتا تھا لیکن اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے ۔ یہ نہیں تھا کہ وہ ذہین نہیں یا پھر وہ محنت سے جی چراتا ہے ۔ وہ جب بھی ہمت کرتا اس کے سامنے والدین کا ادب واحترام اور ایک لاینحل سوال حائل ہوجاتا جسے حل کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی ۔ یہ ایک احمد کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ہر چھوٹے کا بڑے سے اور بڑے کا چھوٹے سے مسئلہ ہے ۔ بڑوں کا اپنے چھوٹوں سے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان کی بات نہیں مانتے اور ان کی خواہشات کا احترام نہیں کرتے ،نتیجے میں نالائق،سست ،بے ادب ،کمزور اور بدتمیز جیسے القابات ملتے ہیں ۔ آج کی نسل اپنے بڑوں مثلاََ والدین ،خاندان کے بزرگوں اور اساتذہ سے شاکی رہتی ہے کہ ہمارے جذبات وخیالات کو نہیں سمجھ سکتے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ہمارا طرز زندگی ،سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے تبدیلیوں نے یکسر بدل کر رکھ دیا ہے مگر ہمارے رویوں میں کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوسکی ۔ تعلیم سے معاشرے میں کسی حد تک تبدیلی تو ممکن ہوئی ہے لیکن معاشرتی سوچ اور رویے اب تک محدود ہیں ۔ جھوٹی انا اور دین سے دوری نے نوجوان نسل اور والدین میں کبھی ختم نہ ہونے والی دوریوں کو جنم دیا ہے اور اس دوری نے کئی گھروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ جنریشن گیپ جو کہ والدین اور اولاد کے درمیان رویوں ،ترجیحات اور خیالات پر اختلافات اور غلط فہمیوں کاباعث بنتاہے ،وہیں اس سے کئی گھرانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور یہ دوریاں کئی اور معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہیں ۔ دیکھنے میں آیاہے کہ جنریشن گیپ دونوں نسلوں کو تقسیم (دور) کردیتاہے ۔ جنریشن گیپ سے مراد وہ ذہنی فاصلہ ہے جو ناقابل قبول حد تک محسوس ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیداہوتاہے ۔ عام طور پر یہ گیپ اٹھارہ سے چالیس سال کی عمر یا اس سے زائد کے افراد کے درمیان پایاجاتا ہے جہاں دونوں اپنی اپنی جگہ الگ زاویے سے سوچتے ہیں ۔ دونوں نسلیں ایک ہی چیز کو مختلف زاویوں سے تولتی ہیں ۔ یہ باہمی فرق کام کرنے کے انداز ،ماضی کے تجربات اور ٹیکنالوجی کے استعمال تک واضح نظر آتاہے ۔ مثلاََاگر بات کی جائے ’’رابطہ رکھنے کی‘‘ تو ہمارے بزرگ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کے قائل ہیں اور خط کی شکل ہے جس کے بعد کہیں جاکر کال نظر آتی ہے جبکہ ہماری نسل کے نوجوان صرف ٹیکسٹ میسج سے ہی کام چلاتے ہیں یاپھر واٹس ایپ پر میسج کرکے اپنا پیغام پہنچادیتے ہیں ۔

خلیل جبران کہتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو بے پناہ محبت تو دے سکتے ہیں لیکن اپنے خیالات نہیں ۔ اس لئے کہ ہر کسی کے خیالات اپنے ہوتے ہیں ۔ اولاد اور والدین میں دوری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ والدین اپنے خیالات وخواہشات اولاد پر تھوپنا چاہتے ہیں اور اولاد اپنی زندگی اپنی مرضی بلکہ اپنی خواہشات کے لئے گذارنے کی کوشش میں ہوتی ہے ۔ یہی وجہ آگے چل کر والدین اور اولاد کے درمیان دوری اور باہمی چپقلش کا باعث بنتی ہے ۔ جیسے کوئی خود ڈاکٹر تونہیں بن سکا لیکن وہ اپنی اولاد کو ڈاکٹر بنانے کی مکمل کوشش کرے گا ۔ یہ درست ہے کہ والدین کا تجربہ اور زمانہ سازی بچوں سے کہیں زیادہ اور مضبوط ہوتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود بچے اس سے مستفید نہیں ہونا چاہتے ۔ ہم اپنی فعال زندگی میں تقریباََ بیس سال تک اس تبدیلی کو محسوس نہیں کرپاتے لیکن اپنی اولاد کے لڑکپن میں ہ میں دنیا نہیں بلکہ اپنی اولاد یا اگلی نسل بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ گویا زمانے میں ہونے والی سست رفتار تبدیلی اگلی نسل کی شکل میں اچانک انقلاب کی صورت اختیار کرلیتی ہے ۔ جب تک ہ میں زمانے کی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ اگر میں اپنی بات کروں تو میں شاید 15سال کی عمر کے لگ بھگ کمپیوٹر سے روشناس ہواتھا لیکن میرے چھوٹے بھائی اسی عمر میں مجھ سے کہیں بہتر طور پر کمپیوٹر سے بہر ہ مند ہورہے ہیں مثلاََ وہ اس وقت ہر نئی آنے والی فلم ،ویڈیو گیم اور سافٹ وئیر سے باخبر ہوتے ہیں اور میں اُس عمر میں ماءوس پکڑنا سیکھ رہا تھا ۔ اسی تناظر میں اگر ان کے بعد آنے والی نسل کی بات کروں تو میری بیٹی 3سال کی عمر میں ہی موبائل پکڑ کر یوٹیوب اور گیلری سے ویڈیوزاور تصاویر دیکھنا شروع کرچکی ہے ۔

ہماری تعلیم و تربیت ،حالات اور ماحول ہماری شخصیت سازی میں بنیادی کردار اداکرتے ہیں ۔ اگر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو لازم قرار دیاجائے اور ان تبدیلیوں کو قبول کرنے کی ہم اپنے اندر قوت پیداکرلیں توآئندہ نسل کی ہم بہتر طور پر تربیت کرکے اس جنریشن گیپ کو کم کرسکتے ہیں ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم ہر آنے والی تبدیلی کو قبول کرتے جائیں اور علم واخلاق جس کا حکم ہمارامذہب دیتا ہے اسے مفلوج کرکے بس ایک مفعول کی طرح جینا شروع کردیں بلکہ تبدیلی کے ہونے کے عمل کو مسلسل مان کر اپنا مثبت کردار اداکریں ۔ ہمارا یہ کردار ہم سے پہلی نسل اور آئندہ آنے والی نسل کے درمیان ایک پل کا سا ہوسکتا ہے ۔ ہم پہلی نسلوں پر اس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں کہ ان کے معاملے میں سوچ لیں کہ ان کی تربیت مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق نہیں ہوئی ۔ درمیانی نسل کے طور پر ہ میں مسلسل فعال کرداراداکرنا ہوگا ۔ ہرپرانی نسل کو آئندہ نسل کو یہ رعایت دینا ہوگی کہ وہ ان کے زمانے میں بننے والے معیارات کا احترام کرے اور جس حد تک ممکن ہوان کا پاس کرے ۔ نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ( سنن ابی داءود،باب فی الرحمۃ ) ۔ اس حدیث سے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنے چھوٹوں کے ساتھ کس رویہ سے پیش آتے ہیں اوراپنے بڑوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا جارحانہ بلکہ گستاخانہ ہوتا ہے ۔ والدین کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اولاد ایک چلتی پھرتی مشین نہیں بلکہ ایک انسان ہے اسے گھر میں ایک دوست کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ ایک داروغہ کی جس کاکام ہی ہر غلطی پر سرزنش اور ماردھاڑ ہوتا ہے ۔ والدین اپنا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ اور مشفقانہ رکھیں اور ان کے ساتھ اپنی ماضی کی باتیں شئیر کریں لیکن کو شش کریں کہ اس میں اولاد کے متعلق ہتک کا کوئی پہلو نہ ہو ۔ نتیجے کے طور پر اولاد بھی اپنے مسائل اور اپنی خواہشات آپ ساتھ شئیر کرے گی ۔ کوشش کریں کہ اولاد کی جائز خواہشات کو مانیں اور ان پر اپنی خواہشات نہ تھوپیں ۔ اولاد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے مسائل وخواہشات شئیر کریں اور یقین رکھیں کہ ان کا مشورہ ان کے لئے بہترین ہوگا ۔ ان کی خواہشات کو حتی الامکان فوقیت دیں اور کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذاریں اور ان کے تجربات سے مستفید ہوں

Leave a reply