گدھوں کی بہتات۔۔۔۔۔ غلام زادہ نعمان صابری

گدھوں کی بہتات۔۔۔۔۔ غلام زادہ نعمان صابری
اللہ تعالیٰ نےجہاں پاکستان کو گوناگوں نعمتوں سے نوازا ہے وہاں اس نعمت کی کمی بھی نہیں چھوڑی یعنی پاکستان کو وافر مقدار میں گدھوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ ویسے اصلی گدھا چار ٹانگوں ،ایک دم اور دوکانوں والا ہوتا۔ گدھے کو خر بھی کہتے ہیں۔ ایک خر ایسا بھی ہے جس کے ساتھ گوش لگتا ہے، وہ گوش کے بغیر خر نہیں بن سکتا۔
اگر گدھے کے سر پرسینگ ہوتے تو وہ کیسا ہوتا ؟ اس بارےمیں مختلف آراء پائی جاتی ہیں ، آراء سے جہاں آراء،شمیم آراء یا کوئی اور آراء ہر گز مراد نہ لی جائیں ورنہ اس کی ساری ذمہ داری مراد پر ڈال دی جائے گی۔
بات ہو رہی تھی کہ اگر گدھے کے سر پر سینگ ہوتے تو وہ کیسا ہوتا؟
بھینسے کی طرح ہوتا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔!
تو پھر بیل کی طرح ہوتا۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!
چلو اب تو مان جاؤ
وہ بارہ سنگھے کی طرح ہوتا۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔!
تو پھرتمہاری نہیں،نہیں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گدھا بغیر سینگوں کے ہی ٹھیک ہے کم از کم گدھا تو ہے ناں۔۔۔۔!
حالیہ جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس کے مطابق گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔اس اضافے پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے جیالوں،متوالوں اور نقالوں نے تبصرے کرتے ہوئے اپنے علاوہ دوسروں کو موردالزام ٹھہرایا ہے۔ حالاں کہ اگر پانچ سالہ منصوبے کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو یہ سہرا نون لیگ کے سر آسانی سے باندھا جا سکتا ہے سہرے کے دوچار پھول اگر پی پی پی کے گلے میں بھی ڈال دیئے جائیں تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
دنیا میں گدھوں کی کمی نہیں جہاں بھر میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں گدھے نہ ہوں مگر پاکستان اس معاملے میں کافی خودکفیل ہے۔ یہاں چار ٹانگوں والے گدھوں کو لوگ گدھا کہتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ کہیں یہ بیچارہ ان کے گدھا کہنے پر غصہ ہی نہ کر جائے۔ لیکن دو ٹانگوں والوں کو گدھا اور گدھے کا بچہ کہتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
میرے سروے کے مطابق ہر دوسرا دو ٹانگوں والا یا تو گدھا ہے یا پھر گدھے کا بچہ ہے۔
اگرآپ میں سے کسی کو میرے سروے پر شک ہو تو وہ خود بھی سروے کر سکتا ہے لیکن اسے میری تجویز پر عمل کرنا ہوگا۔
تجویز کچھ یوں ہےکہ وہ شکرے دوپہر شاہ عالمی چوک میں کھڑا ہوجائے اگر وہاں اس کی تشنگی لب بام رہ جائے تو شاہ عالمی کے اندر چلا جائے اندر جا کر اسے کافی مواد مل جائے گا مزید استفادہ حاصل کرنے کے لئے وہ برانڈرتھ روڈ کا دورہ بھی کر سکتا ہے ۔
اگر مزید کوئی کمی محسوس کرے تو جہاں ٹریفک پھنسی ہوئی ہو وہاں کھڑا ہوجائے یہاں مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ فوری طور پربغیر کسی حیل و حجت کے تسلیم کر لے گا کہ واقعی پاکستان میں دو ٹانگوں والے گدھوں کی کمی نہیں۔
اور پھر مزے کی بات یہ ہے یہاں ہر گدھا دوسرے کو گدھا سمجھتا ہے مجھے کسی نے ایک بار یہ بات کہی تھی کہ اگر ہر گدھا اپنے آپ کو گدھا سمجھ لے تو جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔
میری رگ غیرت پھڑکی تو میں نے اعتراض کیا توکان میں کہنے لگےدیکھو بھئی تم مجھے گدھا سمجھتے ہو اور میں تمہیں گدھا سمجھتا ہوں ایک دوسرے کو گدھا سمجھنے سے کہیں بہتر ہے کہ خود کو گدھا سمجھ لیا جائے کیوں کہ جھگڑا مٹانے کے لیے اس سے بہتر کوئی فارمولا نہیں۔
دیکھوناں گدھا بنانے والا آپ کو سو لوگوں کے سامنے گدھا بنائے گا اگر آپ خود گدھا بن جائیں گے تو کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوگی اوریوں عزت بھی اپنی جگہ برقرار رہے گی اور بدنامی بھی نہیں ہوگی۔
اس سال جو گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس کا ملبہ پی ٹی آئی قیادت پر ڈالا جارہا ہے اس کی اصل وجہ جیو فلمز کی ” ڈونکی راجہ” ہے .
کہنے والے تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ گدھوں نے ایک ایسی گدھا فلم بنا ڈالی ہےجس نے گدھوں کی تعداد میں لاتعداد اضافہ کردیا ہے
ویسے بغیر فیس کے ایک مشورہ ہے کام والے گدھوں کو چھوڑ کر نکمے گدھوں کاکنٹینر بھر کر چین بھیج دیا جائے یا پھران کوہانک کر کشمیر کا باڈر پار کروا کرمقبوضہ کشمیر میں داخل کردیا جائے۔
وہاں یہ اپنے علاوہ کسی اور کو گدھا کہہ کر دکھا دیں تو ہم مان جائیں گے۔
کچھ لوگ گدھوں کی بہتات کاذمہ دار پچھلی دونوں حکومتوں کو قرار دے رہے ہیں جنہوں نے مذاق جمہوریت کی آڑ میں باری باری جمہوریت کی گدھا گاڑی چلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
دونوں کے پاس گدھوں کی تو بہتات تھی مگر گاڑی ایک تھی اس لئے وہ گدھا گاڑی چلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے کیوں کہ گدھے سدھارے ہوئے نہیں تھے ۔
اگر کسی بھائی کو اعتراض ہو تو وہ اس میں ترمیم کرسکتا ہے۔