غلامی کی سوچ . تحریر: محمد ابراہیم

0
60

ڈیرہ غازی خان اور اس کے نواح میں دور جدید میں بھی ایک شکست خوردہ سوچ ابھی بھی زندہ ہے، ایسی سوچ جس کے ذرہ ذرہ میں غلامی پیوستہ ہے، ایسی ذہنیت جن کا یہ ماننا ہے کہ کسی بڑے آدمی/بڑی شخصیت/ سیاستدان یا ایم این اے ایم پی اے سے عام بندہ کم پڑھا لکھا آدمی یا مزدور طبقہ کسی سیاسی منتخب نمائندے سے اپنے حلقے کے بارے میں سوال نہیں کرسکتا؟

ایسی سوچ کو واش کرنے کی ضرورت ہے، ایسی سوچ کو بڑا کرنے کی ضرورت ہے، ایسی سوچ کو وسیع ہونے کی ضرورت ہے، ایسی سوچ کو آزاد ہونے کا راستہ چاہیے کیونکہ ایسی سوچ جب تک زندہ رہے گی تب تک مسکن میں خرابی رہے گی، ایسی غلامانہ ذہنیت جب تک زندہ رہے گی تب تک معاشرہ غلام ہی رہے گا، ایسی سوچ رکھنے والے افراد کو ایک مشورہ ہے کہ جب آپ کسی ایم۔این اے یا ایم پی اے کی الیکشن کمپین کرنے کےلئے جاتے ہو تب کسی عام بندے کے پاس اپنی ارضی نہ لے کے جایا کر، جب اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کو منتخب کرنے کا سوچ رہے ہوتے ہو تب کسی مڈل پاس کے پاس نہ جایا کرو، جب کسی پسندیدہ امیدوار کو قومی/صوبائی اسمبلی میں بھیجنے کا خواب دیکھ رہے ہوتے ہو تب کسی مزدور طبقہ کے پاس اپنے خواب کی تعبیر کےلئے مت جایا کرو، ہمارے معاشرے میں ابھی تک ایسی سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ کسی سردار سے اپنے حلقے کے بارے میں اسکا ووٹر سوال نہیں کرسکتا پھر ایسی سوچ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اپنے سردار کے ساتھ دوران الیکشن کمپین اس عام آدمی کے پاس جانے سے گریز کیا کریں جن کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سوال کرنے کا اہل نہیں، ابھی جب یہ سوچ ختم ہوگی.

اب جب یہ سوچ دم توڑے گی وہاں انشاللہ لوگ اپنے نمائندے کو منتخب کرنے کے بعد اس سے سوال کریں گے کہ ہم نے آپ کو ووٹ دیا تھا ہمارے مسائل کو حل کرنے کےلئے ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے؟. جب اس طرح کے سوال کی بوچھاڑ کی جائے گی تب آپ کے ہمارے نمائندے کچھ کرنے لائق ہونگے، اج تک ہوا کیا ہے؟ سائیں سردار کا نعرہ لگا دیا گیا اور الیکشن میں منتخب کرنے کے بعد اپنے نمائندے کو اگلے پانچ سال کےلئے اسلام آباد یا لاہور کے پر آسائش زندگی کے مزے لوٹنے کےلئے بھیج دینے والے ان کا نعرہ باآواز بلند لگاتے رہتے تھے حلقے/یونین کے کام جائیں بھاڑ میں والی صورت حال سے نکلنے کےلئے اب اس سوچ کو مرنا ہوگا، اب اپنے نمائندے کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے سوال پوچھنا ہوگا ان کو جواب دہ بنانا ہوگا تب جا کر ہمارا سسٹم بھی ٹھیک ہو گا ہمارا ملک بھی بحران سے نکلے گا، سسٹم کا بگاڑ جہاں متعلقہ ادارے ہیں اس سے زیادہ ہم عوام جو غلامانہ سوچ رکھنے والے ہیں کیونکہ جب ہم اپنے نمائندوں سے سوال نہیں کرسکتے،تب ہم کسی سسٹم کو برا بھلا نہیں کہے سکتے ہم نے ووٹ اپنے ایم پی اے/ایم این اے کو دیا ہوتا ہے جب ہم اپنے نمائندے سے سوال کریں گے تب ہمارے نمائندے میں جذبہ ہوگا وہ آگے اپنے لیڈر سے سوال کرے گا تب لیڈر اپنے وزیروں سے پوچھے گا پھر وزیر مشیر جب لیڈر کو جوابدہ ہونگے تب سسٹم میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔جب ہم اچھا ہے اپنے نمائندے کو سوال کئے بغیر اس سے حلقے کا حساب لئے بغیر اچھا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تب وہ اپنے لیڈر کو اچھا ہے کی رپورٹ پیش کرے گا پھر وہاں سے سسٹم لیک ہونا شروع ہوتا ہے، اس سسٹم کا بگاڑ یہی سوچ ہے جو یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ کسی مڈل یا پرائمری پاس کو اپنے حلقے کے نمائندوں سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت ہے ہمیں ایسی سوچ کو آزاد کرنےکی اور یہ سوچ آزاد ہوگی( ان شاللہ).
پاکستان زندہ باد

@IbrahimDgk1

Leave a reply