
غسل کا مطلب ہوتا ہے انسان کا اپنے پورے بدن پر ایک مخصوص طریقہ سے پانی بہانا۔ غسل کو واجب کرنے والی چیزیں چھ ہیں:
(۱) کسی مرد یا عورت کا احتلام ہو جانا مین می کا
قوت کے ساتھ شرم گاہ سے باہر آنا۔
(۲) میاں بیوی کا ہم بستری کرنا۔
(۳) کسی کافر کا اسلام
لے آنا۔
(۴) کسی مسلمان کا مر جانا۔ واضح رہے کہ راہ خدا میں شہید ہونے والے کے علاوہ ہر
میت کونسل دینا واجب ہے۔
(۵) عورت کا حیض (ماہواری) کے خون سے پاک ہونا۔ (6)عورت کا نفاس (بچہ جننے کے بعد نکلنے والا فاضل خون) کے خون سے پاک ہونا۔
غسل کرنے کے دو طریقہ ہیں : پسندیدہ ومحبوب طریقہ اور بقدر ضرورت جائز طریقہ۔
پہلے طریقہ غنسل کرنے سے غسل کامل و مکمل اور شریعت کی نگاہ میں محبوب ہوتا ہے جبکہ دوسرے
طریقہ سے غسل کرنے میں غسل کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ ویسے دونوں طر لیے جائز ہیں۔
پہلے طریقہ یعنی کامل و مکمل کرنے کا انداز یہ ہے
غسل کی نیت دل میں کی جائے اور بسم الله پڑھا جائے۔
دونوں ہاتھوں کو تین بار دھویا جائے اور شرمگاہ کو دھویا جائے۔
پھر پورا وضو کیا جائے جس طرح سے نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔
پھر تین بار سر پر پانی ڈالا جائے تا کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے۔
= پر پورے بدن پر پانی ڈالا جائے۔ پانی ڈالنے میں جسم کے دائیں حصہ پر پہلے ڈالا
جائے اس کے بعد بائیں حصہ پر پانی ڈالا جائے جسم کو ہاتھوں سے رگڑا جائے تا کہ کوئی جگہ
سوکھی نہ رہ جائے۔ اس مرحلہ میں صابون ، شیمپو وغیرہ کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔
غسل کا دوسرا بقدر ضرورت طریقہ یہ ہے کہ ایک ساتھ ہی پورے بدن پر پانی ڈال لیا
جائے۔ واضح رہے کہ اس طریقہ میں منہ اور ناک میں پانی ڈال کر انہیں صاف کرنا ضروری ہے۔
پہلے طریقہ میں وضو کرنے میں یہ دونوں چیز میں آ جاتی ہیں۔
ویسے تو انسان غسل کسی بھی وقت کرسکتا ہے۔ تاہم غسل جن موقعوں پر کرنا شریت
کی نگاہ میں مستحب ہے وہ یہ ہیں:
عید کی نماز کے لیے۔ اس میں عید الفطر اورعیدالانی دونوں شامل ہیں۔
جمعہ کی نماز کے لیے۔
= حج یا عمرہ کے لیے احرام باندھنے سے پہلے۔
= وہ عورت جسے کی بیماری کی وجہ سے خون آرہا ہو
، اس کے لیے شرعا پسندیدہ ہے کہ وہ
ہرنماز سے پہلے غسل کرے۔ اگرچہ واجب نہیں۔ بلکہ ہر نماز سے پہلے صرف وضواجب ہے۔
یہاں ذہن میں رہنا چاہیے کہ ان موقعوں پرنہانا محض مستحب ہے، فرض نہیں۔ لیکن اگر
کوئی ان مواقع پر نہاتا نہیں ہے تو وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا۔
خواتین کے لیے غسل کے چند اہم مسائل درج ذیل ہیں:
1) عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کے ہر حصہ کو جانچ لے کہ وہاں پانی پہنچا
کہ نہیں۔
اس میں بالوں کی جڑوں کو حلق کے نیچے، بغلوں میں، ناف کے نیچے گھنٹوں کے
موڑنے کی جگہوں کو بطور خاص دیکھ لینا چاہیے۔ اگر کوئی انگوٹی یا گھڑی پہن رکھی ہے تو نہاتے
ہوئے انہیں گھما اور ہلا لینا چاہیے تاکہ پانی ان کے نیچے تک پہنچ جائے ۔
۲) عورتوں کو غسل میں دو چیزوں کا خاص طور سے اہتمام کرنا چاہیے: ایک تو یہ کہ غسل مکمل کیا جائے یعنی جسم کی کھال کا کوئی حصہ ایا باقی نہ رہنے پائے جس تک پانی نہ پہنچا ہو۔
دوسری بات یہ کہ بلاوجہ پانی کا اسراف نہ کیا جائے۔ شریعت میں جس بات ک تعلیم دیتا ہے وہ یہ
ہے کہ غسل مکمل کیا جائے لیکن اس میں کم سے کم پانی استعمال کیا جائے۔ اللہ کے رسول کے
بارے میں حدیث گزر چکی ہے کہ آپ کا وضو ایک مد میں اور غسل ایک صاع کے برابر پانی
میں ہوجاتا تھا۔ یہ مد اور صاع دو پیمانے ہیں جن سے عربوں میں سیال اشیا کوناپا جاتا تھا۔ موجودہ
زمانے کی اصطلاح میں مد آدھی کلو کے برابر ہوتا ہے اور ایک صاع دوکلو کے برابر ہوتا ہے۔
۳) ناپاک عورت کے لیے اسی حالت میں سونا جائز ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ سونے
سے پہلے وضو کر لیا جائے۔
4)اگر عورت کے بال گھنے ہیں یا چٹیا میں گندھے ہوئے ہیں تو اس کے لیے ضروری
نہیں ہے کہ انہیں کھول کر ہی نہائے ۔ جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ پانی کو بالوں کی جڑوں تک پہنچایا
جائے۔ اس میں بہتر ہے کہ پوری چٹیا کوایک بارفواره یائونٹی کے نیچے رکھ کر بھگولیا جائے اور پھر سر
پرہی اسے نچوڑ دیا جائے تا کہ سارے بالوں میں پانی پہنچ جائے