گلہ کریں تو کس سے؟ تحریر:نوید شیخ

0
74
کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے، تحریر: نوید شیخ

وزیراعظم عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل پاکستان کو اپنی حکومت میں ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ مگر تبدیلی حکومت کے اقتدار کو تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور عوام ابھی بھی اس ریاست کی تلاش میں ہیں جس میں حق دار کو جلد انصاف مل جائے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال آج جو کچھ سپریم کورٹ میں ہوا ہے اور جو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے لواحقین کی دہائیاں ہیں ۔ وہ ہے ۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے پر تو پیپلزپارٹی ، ن لیگ سمیت بہت سوں کو پہلے ہی بہت سے تحفظات تھے ۔ پر جو عدالت کے باہر اے پی ایس شہدا کے والدین نے کہا ہے کہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کو معافی دینے والی حکومت کون ہیں؟ انہیں صبر نہیں انصاف چاہیے۔ شہدائے اے پی ایس کے والدین کے وکیل امان اللّٰہ نے جو عدالت میں کہا کہ حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔

۔ ایک والدہ نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ ان کا بچہ یہ کہتے شہید ہوگیا کہ اس کی ماں دہشت گردوں کو نہیں چھوڑے گی۔ مظلوموں کی ان دہائیوں نے دل دہلانے کے ساتھ ساتھ بہت ہی اہم سوالات بھی اٹھا دیے ہیں ۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ جیسے اپوزیشن ٹی ٹی پی والے معاملے پر حکومت کے خلاف کھڑی دیکھائی دیتی ہے ۔ جو کچھ آج عدالت میں ہوا ۔ جو پوائنٹس اٹھائے گئے پھر جو لواحقین نے گفتگو کی۔ کیا اس کے بعد ممکن ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدہ کامیاب ہوجائے ۔ کیونکہ دیکھنے کا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اتنے پاکستانی بھارت کا مقابلہ کرتے شہید نہیں ہوئے جتنے ٹی ٹی پی کی دہشتگردانہ کاروائیوں میں شہید ہوچکے ہیں ۔ پھر اس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان جو بنا ۔۔۔ اس کا کیا بنا ؟؟ پر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اسکے وزراء کو چیزوں کا زیادہ ادارک نہیں ہے ۔ کہ پاکستان کس مشکل دور سے گزر رہا ہے ۔ آج بھی اتنے اہم کیس میں عمران خان کی عدالت پیشی کے دوران فواد چوہدری اور شیخ رشید سیاست کرنے اور شرارت کرنے سے باز نہ آئے ۔ جہاں فواد چوہدری میڈیا کو یہ بتا رہے تھے کہ جب سانحہ ہوا تو اس وقت وزیر اعظم نواز شریف تھے ۔ تو شیخ رشید کی پرانی کیسٹ پھر چل پڑی کہ عمران خان پانچ سال پورے کریں گے۔ حالانکہ معاملہ مظلوموں کا انصاف دینے کا تھا ۔ ویسے فواد چوہدری کو یہ تو یاد رہا کہ نوازشریف وزیراعظم تھے یہ بھول گئے وزیر اعلی پرویز خٹک تھے اور پوری پی ٹی آئی ڈی چوک پر ناچ رہی تھی ۔ پھر ان تین سالوں میں عمران خان نے کون سا ایسا تیر چلا لیا ہے جو پانچ سال پورے کر لینے پر عوام نے پھر ان کو ووٹ ڈال دینا ہے ۔

۔ ویسے کل اپوزیشن جماعتوں نےقومی اسمبلی میں مل کر اکثریت کے معاملے میں حکومت کو شکست دے دی تھی جس کے باعث حکومت آئینی ترمیمی بل پیش نہ کرسکی۔ کیونکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد حکومتی اراکین سے زیادہ تھی ۔ اس لیے کاش آج یہ وزیر شہداء کے لواحقین کے لیے دو ہمدردی کے بول ہی بول دیتے ۔ تو زیادہ اچھا تھا ۔ ویسے اس تمام معاملے پر پی ٹی آئی کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے آگیا ہے ۔ جب یہ ہی سپریم کورٹ نواز شریف یا یوسف رضا گیلانی کو عدالت بلاتی تھی تو یہ خوب تعریفوں کے پل باندھا کرتے ہیں اب یہ ہی لوگ سوشل میڈیا پر عدالت کو malign کرنے کی کمپین چلا رہے ہیں ۔ کہ وزیراعظم عمران خان کو بلایا کیوں ؟ سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ناکام ترین حکومت عوام پر ایسا عذاب بن گئی ہے کہ ناانصافی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ یہ عالم آچکا ہے کہ لوگ ان کی حکومت کے خاتمہ کے لئے دعائیں مانگ رہے ہیں اور اذانیں دینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں تو کئی ریکارڈ توڑے ہی تھے، وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے انتقامی کاروائیوں، غیر اصولی سیاست، انتخابی دھاندلیوں، قوانین بذریعہ صدارتی آرڈیننس جن میں کئی غیر آئینی اور جموریت کو سبوتاژ کرنے کے نیت یے اس کے بھی پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔

۔ عمران خان کی خوبصورتی یہ ہے کہ بطور اپوزیشن جن حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے تھے اقتدار میں آکر ان سے نجات کی بجائے انہی کو من و عن اپنا لیا ہے۔ بلکہ گزشتہ ادوار کے وہ لوگ اپنی کابینہ میں شامل کر لیے جن کو وہ چور ، ڈاکو اور پتہ نہیں کیا کیا کہا کرتے تھے ۔ پھر وزیر اعظم عمران خان روز انصاف کی فراہمی ، کرپشن اور احتساب پر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ۔ پر سب جھوٹ ہے اور سب نظر کا دھوکہ ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ خود کیشوں کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں ہو رہا دیگر اخلاقی جرائم بھی منہ زور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک افراتفری کا عالم ہے اور غریب عوام اب چینی جیسی ہر گھر کی روز کی ضرورت سے بھی محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر بجٹ میں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ مہنگائی نہیں ہوگی مگر بجٹ پاس ہوتے ہی حکومت مہنگائی خود بڑھا دیتی ہے۔ ہمیشہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ہمارے فیصلوں کا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا جب کہ ہر حکومتی جھوٹ کا سب سے پہلا اثر ہی عام لوگوں پر پڑتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں بھی جھوٹ بولا جاتا تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت میں غلط بیانیوں، گمراہ کن دعوؤں سے ملک کو جہنم بنا دیا گیا ہے اور نئے نئے ریکارڈ قائم کرا دیے گئے ہیں۔ غیر ملکی امداد اور قرضے پہلے کی نسبت دگنے ہوچکے ہیں۔ پر ہمیشہ صرف یہ بیچا جاتا ہے کہ ہمارا وزیراعظم جہاں جاتا ہے تقریر اور پرسنلٹی کا جادو سب کو رام کردیتا ہے۔ آخر عوام اس چیز پر کتنا کو خوش ہوں ۔ خان صاحب اپنی اپوزیشن کے دنوں میں جس سونامی کا ورد روزانہ کیا کرتے تھے وہ شاید یہی سونامی تھی ۔ جس میں ایک زرعی ملک جو گندم ۔ چینی ۔ چاول اور کپاس میں مکمل طور پر خود کفیل اور خود مختار تھا ۔ آج وہ تمام اجناس بیرون ملک سے امپورٹ کر رہا ہے۔ بمپر فصل ہونے کے باوجود ہم اتنے سخی ہوچکے ہیں کہ اپنی فصلیں اور پیداوار تو افغانستان اسمگل کردیتے ہیں اور خود اپنے لیے زرمبادلہ خرچ کرکے چینی اور گندم بڑی مقدار میں درآمد کررہے ہیں۔ ہمارا دشمن جس قسم کا پاکستان دیکھنا چاہتا تھا ہم نے آج اپنے پاکستان کو اُس مقام پر پہنچادیا ہے۔ ہم نے اپنے تمام بڑے بڑے منصوبے اب گروی رکھنا شروع کردیے ہیں۔ ایئرپورٹ اور موٹروے سمیت بہت سے پروجیکٹ اگر نہ ہوتے تو ہم اپنی کون سی چیز گروی رکھ کے یہ قرضے حاصل کرتے۔ اب صرف نیوکلیئر پروجیکٹ باقی رہ گیا ہے جس پر دشمنوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اللہ وہ دن نہ لائے جس دن قوم صبح جب خواب غفلت والی نیند سے بیدار ہو تو اُسے پتا چلے گا کہ ہمارا یہ اثاثہ بھی گروی رکھ دیا گیا ہے۔۔ اُس وقت ہمارے یہ حکمراں شاید یہی کہتے ہوئے دکھائی دینگے کہ ایسے ایٹم بموں کا کیا فائدہ جن کے ہوتے ہوئے قوم بھوک سے نڈھال ہورہی ہے اور وہ اُس کے کام نہ آئیں۔ روپیہ بنگلہ دیش تو کیا خطہ کے کسی اور کمزور ملک کی کرنسی سے مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے ۔ چالیس سالوں سے تباہ حال افغانستان کی کرنسی بھی ہم سے زیادہ مضبوط ہے۔ پٹرول آج بھی وہاں ہم سے کم قیمت پر دستیاب ہے۔ طالبان کو جس حال میں حکومت ملی ہے وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ لیکن ابھی تک ہم نے اُن کا وہ رونا دھونا نہیں سنا جو ہماری اس حکومت نے ساڑھے تین سالوں سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت اپنی ہر غلطی اور ناکامی کو پچھلی حکومتوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ ہم نے تو نیب قوانین میں مزید ترمیم کرکے جو تھوڑا بہت اس کا بھرم تھا وہ بھی ختم کردیا ہے ۔ شکریہ تو بنتا ہے اس بات پر کہ اس وقت عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ کیوں کہ یہاں پر جس کا جو دل کررہا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ گلہ کریں تو کس سے اور گریبان پکڑیں تو کس کا۔ صبح و شام چیزوں کے ریٹس مختلف ہیں اور وہ کس ریشو سے بڑھ رہے ہیں اور کیوں بڑھ رہے ہیں، کچھ پتہ نہیں ۔ قانون سازی اور آرڈیننس سازی میں جو کمالات عمران خان کی حکومت دکھا رہی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہو یا نیب چیئرمین کی مدت میں توسیع کا، بلدیاتی الیکشن کا معاملہ ہو، اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں کا معاملہ ہو یا نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کا ہر بار نیا کٹا ہی کھولا گیا ہے ۔

وزیراعظم عمران خان مدد لینے دوست ممالک اور قرض کےلیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے جتنے خلاف تھےاب وہ اتنے ہی دھڑلے اور دیدہ دلیری سے ان کے پاس جاتے ہیں اور ایسا کرنے پر ایسی ایسی وجوہات پیش کرتے ہیں کہ لوگ سر پکڑ لیتے ہیں۔ آج معیشت کو دیکھ لیجئے، مہنگائی کا انڈیکس دیکھ لیجئے، کرپشن کے حوالے سے ملک کی رینکنگ دیکھ لیجئے، ایمانداری کے حوالے سے رپورٹیں پڑھ لیجئے۔ صحت کے حوالے سے دیکھ لیجئے۔ ہر چیز حکومت کامنہ چڑا رہی ہے ۔ ایک جانب ڈینگی کنڑول نہیں ہورہا تو ڈینگی بخار کے لیے جو گولی ہے آج ایک ہفتہ ہوگیا ہے وہ مارکیٹ سے غائب ہے۔ میڈیا یہ رپورٹ کرکر کے پاگل ہوگیا ہے ۔ مگر کسی کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہی ۔ حکومت نے اب مہنگائی کنڑول کرنے کا حل یہ نکالا ہے کہ SPI (Sensitive Price index)کا ہفتہ وار دیٹا ہی بند کر دیا ہے ۔ کہ نہ پتہ چلے گا کہ کتنی مہنگائی بڑھی ہے ۔ نہ کوئی رپورٹ کرے گا ۔ یعنی پھر نہ کوئی حکومت کو برا بھلا کہے گا ۔ پھر حکومت میں جو رتن شامل ہیں ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کون کس کا ترجمان ہے۔ کیوں کہ ان کے اپنے وزیر اور مشیر اپنی حکومتی پالیسی سے نابلد نظر آتے ہیں اور ہر ایک کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ۔ اب ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود ان کی باتوں اور بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ ملک یہ نہیں بلکہ گزشتہ حکومتیں چلا رہی ہیں اور وہ صرف ان پر بیانات دینے کا فریضہ سر انجام دینے پر مامور ہیں۔ ہم سب یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان نے بائیس سالہ جدوجہد میں سب سمجھ لیا ہے کہ مسائل کیا ہیں اور ان کو حل کیسے کرنا ہے۔ اور یہ سب ہم نے بلاوجہ نہیں سمجھا بلکہ ہمیں بار بار یہ باور کرایا گیا کہ روزانہ ملک میں اتنے ارب کی کرپشن ہوتی ہے جو ان کے آنے سے رک جائے گی۔ یہ بتایا گیا کہ ان کے پاس کام کرنے والی ٹیم بالکل تیار ہے جس میں ایسے قابل اور ایماندار لوگ ہیں۔ جو نہ کسی نے کبھی دیکھے ہوں نہ ان کے بارے کبھی سنا ہوگا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ نوے دنوں میں یہ ہوجائے گا، دو سال میں یہ ہوجائے گا اور پانچ سال بعد نہ جانے ہمارا ملک ترقی کی کون سے زینے پر قدم رکھ چکا ہوگا۔ پر سچ یہ ہے کہ ملک کو اس حال میں پہنچا دیا گیا ہے کہ آئندہ آنے والا کوئی حکمراں بھی اُسے سنبھال نہ سکے اور پھر قوم کے پاس موجودہ حکمرانوں کے سوا کوئی آپشن باقی نہ رہے۔ ویسے بھی کچھ لوگوں کی نظر میں موجودہ حکمرانوں کا کوئی متبادل ہی موجود نہیں ہے۔

Leave a reply