تیری گود میں پلتی ہے تقدیر امم. ملک منیب محمود

0
38

علم کی اہمیّت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے آج کے اس عہد میں تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنا کے زندگی کے لیے سانس کی آمدورفت۔ ایک بچہ کے لئے ماں کی گود سب سے پہلا مدرسہ ہوتا ہے ایک نومولود جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل معصوم اور فرشتے کی طرح گناہوں سے پاک ہوتا ہے تمام دنیاوی امور اور مسائل سے آزاد ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل کو طے کرتے ہوئے اپنی طفلانہ زندگی کا آغاز کرتا ہے ہر شے لا شعوری طور پر اس کے سامنے آئی ہے بچہ جب اپنی ماں کی گود سے اترتا ہے تو وہ اپنے گھر کی زمین پر قدم رکھتا ہے گویا اسے یہی احساس ہو جاتا ہے کہ اس کے اطراف کا ماحول کیا ہے کہ اپنے اطراف کے ماحول سے مانوس ہوتا چلا جاتا ہے اور ان چیزوں کو قبول کرتا ہے جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہیں۔

سماجی نقطہ نظر سے ایک بچے کا سماج اس کا گھر ہوتا ہے اور بچہ اپنے اس ماحول کے تمام طور طریقوں سے مطابقت کرنا سیکھتا ہے یا والدین اسے سکھاتے ہیں اس میں مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے اس لئے کہ باپ تو تلاش معاش میں گھر سے باہر ہوتا ہے اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو سب سے پہلے بچے کو لکھنا پڑھنا سیکھاتی ہے لیکن ماں اگر ان پڑھ ہے تو وہ اس کی چنداں فکر نہیں کرتی لہذا بچہ اس سے آزاد اور کھیل کود میں مگن رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو اس میں وہ دلچسپی یار محبت مفقود ہوتی ہے جو تعلیم یافتہ ماحول سے آنے والے بچوں میں ہوتی ہے ۔

ماں کی گود کے بعد اور اسکول میں داخلے سے پہلے ایک بچے کا جو مکتب ثانی ہوتا ہے وہ اس کا گھر اور آس پاس کا ماحول ہوتا ہے
گھر کے باہر کا ماحول بھی بچے کو اتنا ہی متاثر کرتا ہے جتنا کے اندر کا عموما بچے گھر کے باہر نازیبا کلمات اور گالی گلوچ سیکھتے ہیں اور اس کا ردعمل کم یا زیادہ گرمیں بھی نظر آتا ہے بہن بھائی کی لڑائی میں ان کی زبان سے کلمات نہ چاہتے ہوئے بھی ادا ہوتے ہیں یہ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ بیرونی ماحول سے اپنے ہم عمر بچوں سے سننے والی باتیں وہ جلدی قبول کرتے ہیں مشترکہ خاندانوں میں بچے زیادہ نفساتی اور حساس ہوتے ہیں مشترکہ خاندانوں میں افراد کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب توتو میں میں عام بات ہوتی ہے اور دو افراد کے بیچ ردعمل کو جب دیکھتے ہیں تو اس کا اثر قبول کر لیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اکثر بچے اپنے گھر کے باہر لڑائی جھگڑے میں پیش پیش رہتے ہیں اگر مشترکہ خاندانوں میں بچوں کے سامنے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائے تو بچے اسی رو میں بہنا شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں آگے چل کر خاندان کے دوسرے افراد متاثر ہو سکتے ہیں تجربات اور مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کا ذہن و دماغ ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے بچپن میں جو باتیں یا عادتیں انہیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں وہ ان کے دماغ میں ثبت ہو جاتی ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ ان میں پختہ بھی ہو جاتی ہیں

ہمیں اپنے معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے اس قول کو اہمیت دے کر ایک بچے کو آنے والے کل کا ایک بہترین انسان بنانا ہوگا تاکہ وہ ایک اچھا اور سمجھدار انسان بن سکے جس طرح ایک سمجھدار انسان ایک چھوٹے سے بچے سے بہت ساری باتیں سیکھتا ہے بعینہ ایک بچہ بھی اپنے بڑے بزرگوں سے بہت ساری نہیں بلکہ تمام باتیں سیکھتا اور قبول کرتا ہے
بچے فطرتا نقال ہوتے ہیں اس لئے گھر کے افراد کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو بھی حرکات و سکنات ان سے سرزد ہوں گی بچہ اسے فورا قبول کرلے گا اس لئے بچوں کے سامنے لغویات اور فضولیات سے پرہیز کرنا والدین اور دیگر بڑوں کی اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ سماجی ذمہ داری بھی اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم ان بچوں کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ان ایک صالح صاف ستھرے ماحول کی تشکیل کے لیے فضا سازگار کرتے ہیں

بچے مستقبل کا سرمایہ ہیں اس لئے یہ بات نہایت ہی اہم ہے کہ ان کی پرورش کیلئے گھر کا ماحول خوشگوار اور صحت مند رکھیں کیوں کہ ایک بچہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بھی وقت گزرتا ہے ایک نیک اور سوال بچہ جب گھر کے باہر قدم رکھتا ہے تو سماج میں مختلف لوگوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے متعلقہ افراد بچے کی عادات و اطوار اور کردار و گفتار سے اندازہ کر لیتے ہیں کہ اس بچے کے گھر کا ماحول کس طرح کا ہے

ماحول دینی ہو تو اس کا اثر بچے کے ذہن کو متاثر ضرور کرتا ہے ورنہ عموما نئی نسل اپنے مذہب اور دین سے کوسوں دور نظر آتی ہے اس کمی کے لئے بھی والے اور گھر کے افراد کی ذمہ دار ٹھہراۓ جائیں گے بچے قدرتی طور پر معصوم ہوتے ہیں اور ان کی اس معصومیت میں آنے والے کل کا مستقبل پوشیدہ ہوتا ہے بالخصوص ایک ماں کی گود میں بچے کی تقدیر بدلتی ہے جو کہ اس مصرعے کی عماز ہے
تیری گود میں پلتی ہے تقدیر امم

Written by” Malik Muneeb Mehmood”
ملک منیب محمود

Leave a reply