چترال(گل حماد فاروقی) یونیورسٹی آف چترال میں گرین ڈے منایا گیا اس سلسلے میں یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ایک سادہ مگر پروقار تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظاہر شاہ مہمان حصوصی تھے جبکہ تقریب کی صدارت اسسٹنٹ کمشنر چترال ڈاکٹر محمد عاطف جالب نے کی۔تقریب میں محکمہ جنگلات، محکمہ ذراعت، محکمہ واٹر اینڈ سوئل کنزرویشن اور دیگر محکموں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر عمیر نواز نے شرکاء کو جنگلات کے حوالے سے اپنے پریزنٹیشن میں تفصیلات پیش کئے انہوں نے کہا کہ چترال چونکہ ایک خشک حطہ ہے جہاں مون سون کی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر یہاں کے پہاڑ بنجر پڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ چترال کے لوگوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر جگہہ پودے لگائے تاکہ جنگلات کی کمی پر قابو پایا جاسکے۔
جامعہ چترال کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظاہر شاہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پودے نہ صرف انسانی بقاء کیلئے ضروری ہے بلکہ جانوروں کی خوراک سے لیکر زندگی کی تمام تر ضروریات انہیں سے پورا ہوتی ہیں۔ انہوں نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کی منفی اثرات سے بچنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پودے لگائے اور انہیں کامیاب بھی کرے۔
ڈویژنل فارسٹ آفیسر آصف علی شاہ نے بھی پودوں اور درختوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ جب تک ہم جنگلات کی کمی پر قابو نہیں پائیں گے تب تک قدرتی آفات کی روک تھام نہیں ہوسکتا۔ یہ درختیں اور پودے نہ صرف ہمیں تازہ آکسیجن فراہم کرتی ہیں بلکہ یہ قدرتی طور پر چیک ڈیم کا کام بھی دیتی ہیں۔
ڈائریکٹر ایڈمن پروفیسر ڈاکٹر محمد ندیم نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور شرکاء بالحصوص طلباء و طالبات پر زور دیا کہ وہ ان مفید باتوں کو اپنے گھر اور محلے تک پہنچائے اور لوگوں کو بھی جنگلات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دے۔
بعد میں وائس چانسلر سمیت تمام مہمانوں نے یونیورسٹی کے لان میں پودے بھی لگائے۔ اس موقع پر طلبا و طالبات میں تین ہزار پودے بھی مفت تقسیم ہوئے جن میں دو ہزار پھلدار اور ایک ہزار جنگلی پودے تھے۔ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ پچھلے سال جو تباہ کن سیلاب آیا تھا اس کے بعد بین الاقوامی طور پر دنیا بھر نے دیکھا کہ موسیماتی تبدیلی کے کتنے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ اس تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پچاس ہزار ڈالر سے زیادہ نقصان وطن عزیز میں ہوا اور کئی لوگ اس میں جان بحق بھی ہوئے کتنے لوگ بے گھر ہوئے۔
یونیورسٹی آف چترال کے طلباء وطالبات نے ہماری ٹیم کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا کہ پودے ہماری زندگی کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ پودے صرف ایک درخت نہیں بنتی بلکہ ایک نئی زندگی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں زیادہ تر جنگلات کی کٹائی ہورہی ہے اور لوگ مجبور ہیں کہ ان جنگلات کو کاٹ کر جلانے کیلئے استعمال کرے کیونکہ یہاں کوئی متبادل ایندھن نہیں ہے اگر حکومت چترال کے لوگوں کو متبادل ایندھن فراہم کرے تو کافی حد تک جنگلا ت کی کٹائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر ندیم نے کہا کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتا ہے تو اس میں کئی جانیں اور لوگوں کا اربوں روپے کا مال کا بھی نقصان ہوتا ہے انسانی جانوں کی ضیاع کی کوئی متبادل نہیں ہے اگر حکومت اس سے پہلے علاج کی بجائے احتیاط پر توجہ دے اور لوگوں کو سستی بجلی یا سستی گیس متبادل ایندھن کے طور پر فراہم کرے تو لوگ لکڑی نہیں جلائیں گے اور جنگلات پر بوجھ کم ہوکر قدرتی آفات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں۔ تقریب کے دوران مہمانوں کو شیلڈ اور سووینیر بھی پیش کئے گییے۔
شعبہ باٹنی کے استاد حفیظ اللہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ صدقے کے طورپر بھی زیادہ سے زیادہ پودے لگائے کیونکہ ہم جتنے بھی پودے لگائیں گے اتنا ہی ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کی منفی اثرات سے ہم بچ سکتے ہیں۔
تقریب میں کثیر تعداد میں جامعہ چترال کے طلبا و طالبات، اساتذہ، انتظامیہ کے افسران، محکمہ جنگلات، پولیس، واٹر اینڈ سویل کنزرویشن اور دیگر محکموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved