گنویری والا: ہڑپہ و موہنجودڑو سے بھی قدیم سرائیکی تہذیب کا مرکز
تحقیق و تحریر:ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
خلاصہ :یہ آرٹیکل سرائیکی خطے کی قدیم تہذیب و تمدن، خاص طور پر گنویری والا شہر کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ گنویری والا، جو ہڑپہ اور موہنجودڑو سے قدیم ہے، وادی ہاکڑہ کے کنارے واقع ایک عظیم تاریخی مرکز رہا ہے۔ آرٹیکل میں علم آثار قدیمہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے، جو قدیم تہذیبوں اور تمدن کے مطالعے کا ذریعہ ہے اور یہ آرٹیکل تین اقساط پر مشتمل ہے .
پہلی قسط کا خلاصہ
سرائیکی وسیب کی قدیم تہذیب و تمدن، خاص طور پر گنویری والا شہر، تاریخی، ثقافتی، اور آثارِ قدیمہ کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ گنویری والا، جو ہڑپہ اور موہنجودڑو سے بھی قدیم ہے، سرائیکی خطے کے تاریخی ورثے کی شناخت کا مرکز ہے۔
آرٹیکل میں علم آثار قدیمہ کی اہمیت، سرائیکی وسیب کے تاریخی پس منظر، گمشدہ شہروں کی دریافت، اور ان کی ثقافتی و تمدنی اقدار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وادی ہاکڑہ اور گنویری والا کی کھدائی سے حاصل ہونے والی معلومات نہ صرف ماضی کی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ اس خطے کی موجودہ شناخت اور ترقی کے لیے تحقیق اور تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہیں۔
یہ قسط علم، تحقیق، اور ورثے کی حفاظت کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے، جبکہ سرائیکی وسیب کے امن، محبت، اور ثقافتی اقدار کو اجاگر کرتی ہے۔
پہلی قسط
علم آثارقدیمہ کی ریسرچ تھیوری سے سرائیکی قدیم تہذیب وتمدن کا تاریخی پس منظر اور اہمیت
تحقیق کا مطلب عشق و محبت کی وہ قیمت ہے جو قدیم بوسیدہ کتابوں کے اوراق پر چھپی مٹی کی خوشبو، نیند کی قربانیوں اور صحرائے چولستان کی نہ ختم ہونے والی تپتی ریت پر پوشیدہ قیمتی خزانوں کی تلاش میں ادا کی جاتی ہے۔ غور و فکر اور فلاح انسانیت کا فلسفہ تمام مذاہب کا مشترکہ پیغام ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے بے شمار راز آسمان و زمین میں پوشیدہ رکھے ہیں اور علم ان رازوں کو سمجھنے کا اعلی ترین ذریعہ ہے۔علم کے تین حروف میں "ع” عشق، "ل” لطافت اور "م” محبت کی علامت ہیں۔
قرآن مجید رب العالمین کا زندہ معجزہ ہے جو علم وعرفان اور حکمت کا سرچشمہ ہے۔اللہ تعالیٰ کے پاک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ علم کی طلب رکھنے والے اور اس سے منہ موڑنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔علم کے متلاشی زندہ دل ہیں جبکہ علم سے غافل افراد گویا مردہ ہیں۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: "علم مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے ملے اسے حاصل کرو۔” یہ فرمان اپنی بےمثال جامعیت اور حکمت کے سبب رحمت العالمین کی عظمت کا واضح ثبوت ہے۔
"آثار قدیمہ” یا "آرکیالوجی” وہ علم ہے جو بطنِ زمین میں دفن قدیم تہذیبوں، گمشدہ شہروں اور ان کے آثار کو منظر عام پر لاتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعے سے ہمیں ماضی کی تہذیب، تمدن،تاریخ،ادب،فنون، رہن سہن،وصیت نصحیت، پالیسی، عملی حکمت و دانش،زبان، روایات اور رسم و رواج کا علم ہوتا ہے۔ ان دریافتوں میں سکّے، کھنڈرات، مٹی کے برتن، پتھروں کی تختیاں، مخطوطات، ہڈیاں، مجسمے، زیورات، اوزار، اور دیگر قیمتی نوادرات شامل ہیں۔ اسی لیے آرکیالوجی کو تمام علوم کی ماں کہا جاتا ہے۔
سرائیکی وسیب میں روہی چولستان کی وادی ہاکڑہ جو ہزاروں سال پرانی تہذیب اور تمدن کا مرکز رہا ہے، ایک اہم آثار قدیمہ کی جگہ ہے۔ گمشدہ شہر "گنویری والا” اسی وادی کا ابتدائی حصہ ہے، جو قدیم دریائے سرسوتی کے میٹھے پانی سے سیراب ہوتا تھا۔ معروف محقق اور دانشور سید نور الحسن ضامن بخاری احمدپوری نے اپنی کتاب معارف سرائیکی میں اس جگہ کو قرآن مجید کی سورۃ الفرقان میں مذکور "اصحاب الرس” کے مقام سے منسلک کیا ہے۔
قرآن مجید میں ذکر کی گئی مختلف اقوام کے عروج و زوال کے قصے آج بھی ہمیں حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں۔ گنویری والا، جو اب خاموشی سے زمین کے نیچے دفن ہے، قلعہ ڈیراور سے تقریباً 55 کلومیٹر جنوب مغرب کی جانب واقع ہے۔یہ مقام اپنی تاریخی تہذیبی،تمدنی اور ثقافتی اقدار کے خزانے کے ساتھ آج بھی تحقیق کا منتظر ہے اور موجودہ چولستانی جیپ ریلی کا مرکز ہونے کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا محور بنتا جا رہا ہے۔
گنویری والا شہر کے حوالے سے یہ معلومات قابل ذکر ہیں کہ اس کا پہلی بار ذکر آرکیالوجسٹ سر آئرل سٹین نے 1941ء میں کیا۔انہوں نے موہنجوداڑو، ہڑپہ،رحمان ڈھیری، پتن منارہ، قلعہ ڈیراور، بی بی جند وڈی کا مقبرہ، قلعہ بل اوٹ، سوئی وہاڑ، جلیل پور، مہرگڑھ، اوچ، ملتان اور پاکستان بھر کے آثار قدیمہ کی ابتدائی کھدائی کے پراجیکٹس میں حوالہ دیا۔
سرائیکی خطے کے قدیم چولستانی حکمران راجپوت قبائل کے بارے میں ایک کہاوت عام ہے جس میں آٹھ قوموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ قومیں آج بھی دریائے سندھ کے دونوں کناروں اور روہی میں آباد ہیں۔تاریخی کتب میں درج ہے کہ سکندر مقدونی کو ملتان میں "خونی برج” کے مقام پر سرائیکی ملہی قوم کے ایک بہادر سپہ سالار نے زہریلے خنجر یا تیر سے شدید زخمی کیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوا۔
سرائیکی وسیب آج بھی صوفی ازم، امن، اور زراعت کے لحاظ سے مالا مال ہے۔اس کی معاشی خوشحالی حملہ آوروں کے لیے قبضہ گیری اور قتل گاہ ثابت ہوئی۔ ملتان شہر کی تاریخی تہذیب کے حوالے سے سرائیکی کہاوت مشہور ہے: "جئیں نہ ڈٹھا ملتان نہ او ہندو نہ او مسلمان۔” اردو کی ایک مشہور ضرب المثل بھی ملتان کی اہمیت بیان کرتی ہے: "آگرہ اگر، دلی مگر، ملتان سب کا پدر۔”
روہی چولستان، دمان، تھل اور راوا جیسے علاقے سرائیکی وسیب کی چھ سے سات ہزار سال پرانی تہذیب کی گواہی دیتے ہیں۔امن، محبت،اتحاد،عدم تشدد،تصوف،خلوص،فطرت سے پیار،احترام آدمیت،مٹھاس،برداشت،صبروتحمل،فنونِ لطیفہ سے عشق،دستکاری اور ہنر مندی اس خطے کے اہم موضوعات اور نمایاں خصوصیات ہیں۔
سرائیکی قدیم چولستانی حکمرانوں کے حوالے سے ایک مشہور کہاوت کا نمونہ ملاحظہ کریں"جہاں اتحاد، بہادری اور خلوص ہو، وہاں عظیم قومیں جنم لیتی ہیں۔”
سنگلی جنہاں دی ڈاڈی سوڈھی جنہاں دی ماء
ملہی جنڑے پنج پتر ڈاھر،بھٹہ،لنگاہ،نائچ، شجراء
آج کا روہی چولستان سرائیکی وسیب ایک مرتبہ پھر دنیا کو امن و رواداری،معاشی خوشحالی،تعمیر نو اور ترقی کی ضمانت دینے کا خوبصورت گیت گا کر سنا رہا ہے۔روہی چولستان گنویری والا شہر کی بنیادی تہذیب وتمدن سرائیکی وسیب کی اپنی ہے۔یہ تہذیب باہر سے آکر آباد نہیں ہوئی ہے۔
جاری ہے۔