ہامی بھر ہی لی تحریر:احمد آزاد، فیصل آباد

ہامی بھر ہی لی
احمد آزاد، فیصل آباد
آپ لکھتے کیوں نہیں ؟ پاک بلاگرز فورم ” اک مجموعہ ہے جس میں نوجوان نسل کو لکھائی اور پڑھائی کی جانب شوق دلانے کی خاطر کام ہورہا ہے ۔ خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے بلکہ لکھنے کے معاملے میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے ۔ اگرچہ عددی اعتبار سے قدرے کم ہیں۔ ” کے اک بھائی کا پیغام دیکھا تو جواب دیا کہ بس ایسے ہی لکھنا چھوڑا ہوا ہے۔ فرمائش کی گئی کہ لکھا کریں اور ہم نے سر تسلیم خم کردیا ۔ اسی طرح اک اور دوست کی طرف سے بھی کہا گیا اور انھوں نے بات کو مختصر کرتے ہوے کہا کہ آپ صرف "حامی” بھریں ۔ اب ہم کیسے ہامی کو حامی میں بدل کر بھر لیتے کہ حامی کا مطلب تو حمایت کرنا ہوگا جب کہ دوست اقرار کروا رہے تھے جو کہ ہامی بھرنا ہوتا ہے ۔ استاد محترم اطہر علی ہاشمی مرحوم "اللہ کریم جوار رحمت میں جگہ دے کہ صحافت کی شان تھے ” اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ ” حامی‘ اور ’ہامی‘ کا جھگڑا طے ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ منگل کے ایک اخبار کی سرخی ہے ’’محتسب کے سامنے زبانی حامی بھرنے والا…‘‘
ارے بھائی، حامی کا مطلب تو حمایت کرنے والا ہے، یہ کہیں بھری نہیں جاتی۔ اور جو بھری جاتی ہے وہ ’ہامی‘ ہے جس کا مطلب ہے ہاں، اقرار۔ ہامی بھرنا: اقرار کرنا کسی کام کا جو کسی قدر دشوار ہو، وعدہ کرنا، زبان دینا وغیرہ۔ ایک شعر میں ہامی کا استعمال دیکھیے:
کیوں مرے قتل پہ ہامی کوئی جلاد بھرے
آہ جب دیکھ کے تجھ سا ستم ایجاد بھرے”
جب استاد ہی اس کے متعلق کہہ گئے ہیں کہ یہ جھگڑا ختم ہونے میں نہیں آرہا تو ہم بھی اس میں پڑنے کی بجاے آگے بڑھتے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے عیدالاضحیٰ گذری ہے ویسے اشتہارات وغیرہ میں اسے بھی عیدالضحیٰ لکھا پڑھا ہے جس میں بنیادی کردار قسائی کا ہوتا ہے جن کو تو قسائی مل جاتا ہے وہ تو پہلے دن ہی فریضہ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور جن کو موسمی قسائی میسر آجائیں ان کی عید کے بعد بھی صلواتیں سننے لائق ہوتی ہیں ۔ عیدالاضحیٰ کو بقرہ عید بھی کہتے ہیں جسے اب بکرا عید بھی لکھا ہوا پڑھا ہے ۔ شاید یہ بھی لفظ قسائی کو قصائی کرنے جیسا ہی ہو رہا ہے ۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق یہ لفظ قصّ سے بگڑ کر قسائی ہوا ہے ۔
سودا کا شعر ہے
جس دن سے اس قسائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ
گر رہے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار
کسی دور میں چراغ کی بتی استعمال ہوا کرتی تھی جسے فتیلہ کہتے تھے اور یہی لفظ توپ یا بندوق کے توڑے پر بھی بولا جاتا تھا۔ جیسے جیسے چیزیں جدیدیت کا روپ دھار رہی ہیں ویسے ویسے الفاظ بھی اپنی ہیت تبدیل کررہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں قفلی ملا کرتی تھی جو کہ لفظ قفل سے ملتا جلتا لفظ تھا اور اب اک عرصہ ہوا قفلی پڑھے ہوے اب تو قلفی اور قلفہ ہی چلتا ہے ۔اب دیکھیے کہ لفظ قفلی کا مطلب پیچ دار ظرف جو کہ ایک دوسرے میں آ کر پھنس جاتا ہے ۔ ایک دوسرے میں آتا ہوا نل یا نلی جیسے حقے کی قفلی اور برف کی قفلی۔ لغت میں تو قفل وسواس بھی ہے جس کا مطلب ہے گورکھ دھندا ہوتا ہے ۔ شاید یہ ایسا ہی گورکھ دھندا ہے جو سمجھ نہیں آرہا بلکہ جتنا سلجھ رہا ہے اتنا ہی الجھتا جارہا ہے ۔
آج اک دوست کی نوکری کے سلسلہ میں اخباری اشتہارات دیکھ رہا تھا تو اس میں سرکاری اشتہارات بھی نظروں سے گذرے جس میں "مع” کو بمع اسناد و دستاویزات وغیرہ لکھا ہوا پڑھا ۔ اگر سرکاری سطح پر اس طرح کے ظلم و ستم کیے جائیں گے تو نجی اداروں میں تو قومی زبان کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ ان کو چاہیے کہ کم از کم اک بندہ اردو زبان کا رکھ لیں جس کی خدمات سے استفادہ کرسکیں ۔ کسی دور میں ہم استفادہ کے ساتھ لفظ حاصل لگا کر خوش ہوا کرتے تھے پھر ہم مدیران جسارت کے ہتھے چڑھے تو انھوں نے جان چھڑوائی کہ استفادہ کے ساتھ حاصل لکھنے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اک لفظ ادائی ہے رقم کی ادائی وغیرہ جسے ہر جگہ ادائیگی لکھا جاتا ہے ۔ یہ لفظ اس قدر مستعمل ہوچکا ہے کہ ادائی جو درست ہے دماغ قبول ہی نہیں کرتا ۔ اس پر بھی لگتا ہےسمجھوتا کرنا ہوگا کیوں کہ یہ لفظ بھی مہنگائی اور مہندی کی طرح عام ہوچکا ہے ۔بعض افراد کو اپنے نام کے ساتھ چوہدری لکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے جب کہ یہ لفظ چودھری ہے جسے لکھنے والوں نے چوہدری لکھ لکھ کر دماغ کا دہی بنایا ہوا ہے ۔ اب گاؤں کے چودھری کو بندہ کیسے سمجھاے کہ چودھری صاحب یہ لفظ جو آپ اپنی شان کو بڑھانے کے لیے لکھتے ہیں یہ لفظ چوہدری نہیں چودھری ہے؟ اصل چودھری کو تو سمجھانا دور کی بات شوقیہ لکھنے والوں کو سمجھا کر دیکھ لیجیے دن میں تارے نہ دکھاے تو کہیے گا ۔ ایسے ہی ہم نے غلطیوں سے سیکھا ہے اور اب بھی سیکھ رہے ہیں ۔ اس تحریر میں بھی کئی غلطیاں ہوں گی جو ہمارے بڑے نکالیں گے اور ہمیں خبردار بھی کریں گے۔

Comments are closed.