حکومت ، اتحادی ، اپوزیشن اور اقتدار کی رسہ کشی، تحریر: نوید شیخ

0
41

۔ ایک طرف کپتان روز ٹی وی پر آکر اپوزیشن کو للکار رہے ہیں۔ اور اپنے ورکرز کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں جبکہ لگتا یہ ہے کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے ۔ کیونکہ ان کے پاس اگر 172لوگ پورے ہوتے تو فورااسمبلی کا اجلاس بلا لیتے ۔ اور دس لاکھ لوگ ڈی چوک میں اکٹھے کرنے کا حکم صادر نہ فرماتے۔اب کل جو مولانا نے 23 مارچ کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اس کے بعد سے حالات کسی بھی رخ جا سکتے ہیں ۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین نے اپوزیشن اور حکومت دونوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے اپنے پلانز کو ملتوی کردیں ۔ مگر یہ ملتوی ہوتے دیکھائی نہیں دیتے ۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ 23مارچ کے بعد سے پورے ملک میں ایک دھما چوکڑی لگنے والے ہے ۔ لگی ہوئی تو ابھی بھی ہے ۔ کیونکہ کپتان کیا ان کے وزیروں کی زبانیں بھی بند نہیں ہورہی ہیں ۔ ان کے منہ سے مسلسل ایسی آگ نکل رہی ہے جس کے شعلوں کی لپیٹ میں پورا کا پورا سسٹم رول بیک ہوسکتا ہے ۔

۔ سب سے زیادہ تشویش ناک صورت حال ووٹنگ والے دن اور ووٹنگ کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ارکان قومی اسمبلی اوراتحادیوں کو پارلیمنٹ ہاوس جانے سے ہر حال میں روکنا ہے جبکہ اپوزیشن کو تحریک انصاف کے باغی ارکان اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کو ہر حال میں پارلیمنٹ ہائوس لانا ہے۔ فی الحال حکومت نے تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے اور اپوزیشن نے تحریک کو کامیاب بنانے کے لئےہر حربہ استعمال کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے ۔ تحریک کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے اور تحریک کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن نے احتجاج کو گلی محلوں تک لے جانے کا پلان کررکھا ہے ۔ اسی طرح تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے بھی تصادم کے غیر معمولی حالات پیدا ہونے کے امکانات ہیں اور ووٹنگ کے بعد بھی غیر متوقع واقعات رونما ہو سکتے ہیں ۔

۔ حکومت کا تو دعوی ہے کہ وہ دس لاکھ لوگ لے ہی آئیں گے ۔ مگر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی بات کی جائے تو مولانا فضل الرحمان نے ن لیگ کو مشورہ دیا ہے کہ لانگ مارچ کے حوالے سے ن لیگ کے قافلےکی قیادت مریم نواز کریں اورلاہور سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد پہنچیں۔ جبکہ شہباز شریف اسلام آباد میں لانگ مارچ کے قافلے کا استقبال کریں۔ پھر یہ بھی تجویز ہے کہ جنوبی پنجاب کےکارکنان کولاہور میں جمع ہونےکی کال دی جائے ۔ باقی سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان سے بندوں کو لانے میں بھی مولانا خود بڑے کاریگر ہیں ۔ وہ پہلے بھی تن تنہا بڑے کامیاب دھرنے اسلام آباد میں دے چکے ہیں یوں اگر حکومت دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرے گی تو پی ڈی ایم بھی کم تعداد میں بندوں کو اسلام آباد نہیں لائے گی ۔ یوں اگر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ان جلسوں کی کالز واپس نہیں لی جاتیں ۔ تواسلام آباد میں خدشہ ہے کہ وہ نہ ہوجائے جو کسی بھی جمہوریت پسند شخص کا سب سے بڑا ڈر ہوتا ہے ۔

۔ پھر آج عمران خان نے اورسیز کنویشن سے خطاب میں بھی ایک بار پھر اپنی طرف سے خوب چوکے چھکے لگائے ہیں ۔ حالانکہ اتحادی اور اسٹیبلشمنٹ دور کی بات ان کے اپنے بھی ان کے ساتھ دیکھائی نہیں دیتے ۔ بہرحال آج انکا فرمانا تھا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان اب اکھٹے ہوگئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ملک بچانے نکلے ہیں، اگر ان تینوں نے ملک بچانا ہے تو بہتر ہے عمران خان کے ساتھ ڈوب جائیں۔ وہ اپوزیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے قوم کو ٹماٹر اور پیاز کی قیمتیں بھلادیں۔ ن لیگ نے تقریباً 20 سال یہ کہا کہ آصف علی زرداری پاکستان کا کرپٹ ترین شخص ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا نام ’ڈیزل‘ بھی ن لیگ نے رکھا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کپتان کے جال میں پھنس گئے ہیں، ان کی عدم اعتماد تو ناکام ہوگی ہی 2023 کے الیکشن سے بھی یہ لوگ گئے۔۔ دوسری جانب وزیروں کو جب اپنی بات بنتی نہیں دیکھائی دے رہی ہے تو انھوں نے بھی اپنے ٹوکے چھریاں پھر باہر نکال لی ہیں ۔ ۔ فواد چوہدری نے کہا ہے کہ کس مائی کے لعل میں کلیجہ ہے کہ دس لاکھ کے مجمع سے گزر کر عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالے اور واپس جائے۔۔ تو شیخ رشید کا فرمانا تھا کہ امپائر پاکستان کے ساتھ ہیں اور جنہیں پاکستان کی فکر ہے وہ ان کو سمجھا رہے ہیں کہ اپنے معاملے افہام و تفہیم سے حل کریں۔ اپوزیشن کا اوپر والا خانہ خالی ہے، یہ ساری سامراجی سنڈیاں ڈی چوک میں فارغ ہو جائیں گی۔۔ جبکہ پرویز خٹک نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت الگ الگ نہیں، ان دونوں نے ایک ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ عمران خان بہت زیادہ پراعتماد ہیں، سیاسی جماعتوں کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، جس نے جانا ہے استعفیٰ دے دے، ورنہ اس طرح حلقے کے عوام سے دغا ہوگا۔

۔ پھر اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے خودکش بمبار بن کر ملک اور مذہب کے دشمنوں کے بیچ میں جاکر خود کو اڑانے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے اس سے پہلے وزیر اعظم نے آصف زرداری کو بندوق کے نشانے پر رکھنے کی بات کی تھی۔ اہم منصب پر ہوتے ہوئے ایسے بے مقصد بیانات دینا میری سمجھ سے باہر ہے ۔ پر ایک چیز ہے کہ اس وقت کپتان اور اسکے کھلاڑی شدید گھبرائے ہوئے ہیں ۔ ۔ میں نے گزشتہ دو تین مصروف دن اسلام آباد میں گزرے ہیں جس میں بہت سے لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا ۔ یوں میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ کپتان یا ان کے وزیر جو مرضی کہیں مگر اسلام آباد میں خبریں کپتان اور ان کی ٹیم کے لیے اچھی نہیں ہیں ۔ ۔ اس وقت تمام لوگ عمران خان اور انکی ٹیم سے بدلہ لینے کے لیے اکٹھے ہوچکے ہیں اور اس وقت اپوزیشن جماعتوں سمیت اکثر اتحادی بغیرکسی شرط کے حکومت کا مکو ٹھپانا چاہتے ہیں ۔ وجہ جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب ان چار سالوں میں اتنی زبان درازی ہوئی ہے کہ اب جس جس کو موقع مل رہا ہے وہ اپنا اسکور settleکرنا چاہتا ہے ۔ سب عمران خان اور ان کی ٹیم کو سبق سیکھانا چاہتے ہیں ۔ اب صرف سیاست نہیں ہو رہی ہے معاملہ ذاتیات تک پہنچ چکا ہے کیونکہ عمران خان نے مسلسل اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھا ہے ۔ گرفتاریوں اور پرچوں کے علاوہ بھی ان کے
followersاپوزیشن والوں کے گھروں تک پہنچے ہیں ۔ یوں جو گند ان چار سالوں میں ڈالا گیا تھا اب اس کا حساب دینے کا وقت قریب دیکھائی دے رہا ہے ۔ کیونکہ کل میں نے مولانا سے ایک سوال کیا کہ اگر عمران خان آپ سے رابطہ کریں تو کوئی بات چیت ہوسکتی ہے معاملات حل ہوسکتے ہیں تو ان کا صاف جواب تھا کوئی چانس ہی نہیں ہے ۔ ۔ یوں جیسے ترین گروپ کو ٹارگٹ کیا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے کہ اب جب ان کو موقع مل رہا ہے تو یہ بھی کاری ضرب لگانے کو تیار ہیں ۔ جبکہ صرف ترین گروپ ہی نہیں ق لیگ کے اکثریتی اراکین نے بھی عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کی تجویز دے دی ہے ۔ پھر یہ جو سب اتحادی ہیں انھوں نے ایک اور چیز بھی مل کر طے کرلی ہے کہ اپوزیشن کی طرف گئے تو اکٹھے جائیں گے ۔ اور اگر حکومت کی طرف گئے تو اکٹھے جائیں گے ۔ ۔ ویسے خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت وفد کی آصف زرداری سے ملاقات میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے تمام نکات پر اتفاق کرلیا ہے ۔ یعنی ان کے بھی معاملات طے ہوگئے ہیں ۔

۔ پھر اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کیلئے وزیراعظم کی بھاگ دوڑ جاری ہے ۔ آپ دیکھیں وہ شخص جو کسی سے تعزیت کرنی ہو تو تب بھی لوگوں کو وزیر اعظم ہاوس بلا کر کیا کرتا تھا ۔ اب پارلیمنٹ لاجز جاکر مدد مانگنے پر مجبور ہوگیا ہے ۔ یوں کپتان جی ڈی اے اور بی اے پی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے خود پارلیمنٹ لاجز گئے ۔ حالانکہ فہمیدہ مرزا، غوث بخش مہر اور ذوالفقار مرزا کے حوالے سے بتا دوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ آصف زرداری کے کہنے پر حکومت کے خلاف ووٹ ڈال دیں ۔ مگر اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ کپتان کو مجبورا ان کے در کی خاک بھی چھانی پڑی ہے ۔ جبکہ سنا ہے کہ خالد مگسی نے جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کپتان کی اس confrontationکی سیاست سے متفق نہیں ۔ دیکھا جائے تو تحریک انصاف کا سیاسی بیانیہ دم توڑ چکا ہے ۔۔ میری نظر میں جس طرح عمران خان نے عوامی رابطہ مہم شروع کردی ہے ۔ اور جیسے یہ کنویشن اور جلسے کر رہے ہیں اس سے واضح تاثر ہے کہ وہ اگلے الیکشن کی تیاریوں میں جت گئے ہیں ۔ عدم اعتماد کی تحریک کا ان کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ انکے خلاف کامیاب ہی ہوگی ۔ یوں سرکاری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی الیکشن کمپین چلا رہے ہیں کیونکہ میری چڑیل کے مطابق کپتان کے پاس اب صرف 140 سے 145ووٹ ہی بچے ہیں ۔ اس لیے لوگوں نے برملا کہنا شروع کر دیا ہے کہ ڈر کے کھڑی ہے پی ٹی آئی ۔۔۔

Leave a reply