پنجاب حکومت بسنت کے تہوار پر سے پابندی ہٹانے کی تجویز پر غور کررہی ہے۔
بسنت کے تہوار کے موقع پر لاہور سمیت پنجاب کے شہریوں کیلئے اچھی خبر سامنے آگئی،نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت بسنت تہوارمنانے پرنظرثانی کررہی ہے، حفاطتی اقدامات کے ساتھ بسنت کو منایا جانا چاہیے۔
بسنت برصغیر پاک و ہند کے علاقے پنجاب کا ایک موسمی اور ثقافتی تہوار ہے۔ اسے بسنت پنچھمی بھی کہتے ہیں۔ پنجابی کیلنڈر کے حساب سے قمری سال کے مہینے ماگھ کی پانچویں تاریخ کو یہ دن منایا جاتا ہے جو آخر جنوری اور شروع فروری کے ایام میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ بسنت رُت کے بدلنے کی نوید ہے۔
بسنت کا تہوار یوں تو صدیوں سے منایا جا رہا ہے لیکن مقبولیت اسے انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں ملی جب پنجاب میں مہاراجہ کی حکومت کا سکہ چلتا تھا بسنت اس دور میں پوری شان و شوکت اور شکوہ سے منائی گئی تھی، مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کی مہارانی مائی موراں پیلے رنگ کے پیرہن زیب تن کرتے اور لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھےتب پنجابی فوج کے جوان پیلے رنگ کےلباس پر زرہ بکتر سجائے اپنی شان دکھاتےتھےامرتسر، قصور اور لاہور میں بسنت زور و شور سےمنائی جاتی تھی، خو ب پتنگ بازی ہوتی، مہاراجہ اور مہارانی خود پتنگ بازی کرتے اور عوامی میلوں کو اپنی شمولیت سے خوشی بخشتے تھے۔
برصغیر میں پنجاب کی حکومت جب انگریزوں نےسکھوں سے چھین لی تو بہت سی تمدنی و ثقافتی روایات دم توڑ گئیں یا دھیمی پڑ گئیں، تاہم بسنت چونکہ موسمی تہوار تھااور خاص و عام میں مقبولیت پائے ہوئےتھا اس لئے زندہ،متحرک اور تازہ رہا قیام پاکستان کے بعد بھی بسنت نے علاقائی رنگ جمائے رکھا اور مغربی پنجاب میں پیلی سرسوں کے ہویدا ہوتے ہی پتنگ بازی اور میلوں کی صورت میں اپنا علم بلند رکھا یہ ایک ایسا تہوار تھا ، جس سے انسانی خوشیوں کے ساتھ ساتھ معاش و معیشت کا ایک نظام بھی بندھا ہوا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح آسان اور فوری دولت کے حصول کی خواہش اور دیگر قباحتوں نے سیدھی سادی روایتوں کو پامال کیا اسی طرح بسنت کے تہوار پر پتنگ بازی کا شغل بھی گہنا گیا۔ مہلک ڈور نے بچوں کے گلے کاٹنے شروع کر دیئے اور پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل سوار زخمی ہونے لگے۔ ناچار حکومت کو پتنگ بازی پر پابندی عائد کرنا پڑی، یوں ایک اچھا خاصہ مشغلہ عاقبت نا اندیش لوگوں کی حرص اور عجلتی رویے کی نذر ہو گیا۔