ہمارے سامنے ماسٹر نہ بنیں، کسی کے لاڈلے ہونگے،ہمارے نہیں،چیف جسٹس کے ریمارکس

ہمارے سامنے ماسٹر نہ بنیں، کسی کے لاڈلے ہونگے،ہمارے نہیں،چیف جسٹس کے ریمارکس

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خاتمہ کے حوالہ سے کیس کی سماعت ہوئی،عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب،آپ ہمارا حکم نامہ مزید پڑھیں، چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیاشہرمیں دیگر غیر قانونی تعمیرات ختم ہوگئیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں پارکس اورکھیل کے میدانوں کی کیا صورتحال ہے،چیف سیکریٹری صاحب سامنے آئیں،

چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو حکم دیا کہ آپ آرٹیکل 140اےپڑھیں،کیا یہ آرٹیکل سندھ میں لاگو نہیں ہوتا،چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سندھ سے استفسار کیا کہ بتائیں بلدیات کو فعال کیوں نہیں کر رہے؟بلدیاتی نظام کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں

چیف سیکرٹری نے عدالت میں کہا کہ سندھ حکومت نے بیشتر اختیارات میئرکراچی کو ہی دے رکھے ہیں،میئرکراچی کا کہنا غلط ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کے سارے سیکریٹری ان کا ہی تو کام کر رہے ہیں،کراچی کے سیوریج کے نظام کو کون دیکھے گا؟،آپ ملین ڈالر لگاتے ہیں کیا آپ پیسہ بھی لوگوں پر لگا،ساراپیسہ توآپ لوگوں کی جیبوں میں جاتاہے،ہمارے سامنے ماسٹر نہ بنیں،آپ پاکستان کے ایک ملازم ہیں اس طرح نہ کریں،آئین پاکستان آپ لوگوں پر بھی عائد ہوتا ہے، قانون کی پابندی آپ لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے،

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ میئرکراچی کی کہانی بھی نہیں سنیں گے،میئرکراچی گیت سناتے ہیں مگر نہیں سنیں گے،آپ لوگ سوٹ پہن کر دفاتر میں بیٹھ جاتے ہیں،

چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بتائیں آخری بار کون سی سٹرک کا دورہ کیا،آپ لوگ مذاق کر رہے ہیں ،کسی کےلاڈلےہوں گے، ہمارےنہیں،

چیف جسٹس گلزار احمد نے میئر کراچی سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ میئرصاحب آپ بتائیں، آپ نے کیا کیا؟ میئر کراچی نے کہا کہ میں نے سفارشات دیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہورہی،مجھے 7 ارب روپےملتے ہیں جو تنخواہوں اور پینشن میں لگ جاتے ہیں،میں نے سٹرکیں بنائی ہیں،میں نے بڑی نہیں چھوٹی سڑکیں اور گلیاں بنائیںمیں نے ناظم آباد میں چھوٹی سڑکیں بنائیں،

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ناظم آبادمیں توکوئی چھوٹی سڑک نہیں،چیف جسٹس نے میئر کراچی اور چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ لیاری،پاک کالونی اورلالو کھیت کبھی گئے؟

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد چیف سیکرٹری پر برہم ہو گئے اور کہا کہ بتائیں، خاموش کیوں ہیں؟کبھی گھر سے دفتر کے درمیان والی سڑک پر نظر ڈالی؟وزیراعلیٰ سندھ سے دستخط کروا کر رپورٹ جمع کرائیں،وزیراعلیٰ سندھ لکھ کردیں کہ بلدیاتی نظام کوفعال کیوں نہیں کررہے،

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میئرکراچی بےاختیارکہہ رہےہیں مگرایسا نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر بتائیں، کون کون سے اختیارات میئرکے پاس ہیں،

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جہاں ایک دن میں کروڑوں بنتے ہیں وہ سندھ حکومت کے پاس ہیں،کار پارکنگ فیس میئرکراچی پر چھوڑ دی، ہمیشہ سے وسائل سندھ حکومت نے اپنے پاس رکھے،جب فنڈز نہیں ہوں گے تو بلدیات کیسے چلے گا؟ میئرکراچی بجلی کا بل ادا کرنے سے قاصر ہے،ہم مداخلت نہ کرتے تو بلدیاتی دفاتر اندھیرے میں ڈوب جاتے

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بلدیات سے کام نہیں لینا تو پھر کیوں رکھا ہوا ہے؟پڑھے لکھے اور سمجھ دار آدمی ہیں مگر نظام ایسے نہیں چلتے، کراچی میں ایک فیصد پروفیشنل کام نہیں ہو رہا،کراچی کوئی گاؤں نہیں پاکستان کا نگینہ ہوتا تھا،صرف مفادپرستی کی خاطریہ ظلم کراچی کےساتھ کیوں کیا گیا،سارے پارک ختم کردیے،قبرستان تک نہیں چھوڑے،کراچی کو عمارتوں کا بے ہنگم جنگل بنا دیا،پارک ہی نہیں قبرستان تک غائب کر دیے گئے،چلیں کراچی کو آپ نے چلانا ہے تو پھر چلائیں بھی طوطا کہانیاں نہیں سنیں گے، کاغذئی کہانیاں مت سنائیں،

چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ بیوروکریٹس کام کرنے والے ہوتے ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ تجاوازت کے خاتمے پرپولیس کی کیا حکمت عملی ہوگی، ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ ہمارا کام سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، حکومت جب کہے گی سیکیورٹی دیں گے، تجاوزات کےخلاف آپریشن میں پولیس اپنا کردار ادا کررہی ہے،

Comments are closed.