ہماری قومی زبان اردو ہماری پہچان ،صائمہ رحمان

0
146

زبان اظہار رائے کا سب سے حسین اور بہترین ذریعہ ہے کسی بھی ملک کی قومی زبان نا صرف اس کی شناخت ہوتی ہے بلکہ اتحاد و ترقی کی ضامن بھی ہوتی ہے زبان اس ملک کی معاشرت اور تہذیب اور تمدن کی بنیاد ہوتی ہے کسی بھی قوم کی ترقی قومی زبان پر منحصر ہے ہوتی ہے امریکہ جرمنی جاپان اور فرانس ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے وہ اس لئے انھوں نے اپنی اپنی زبانوں کو بہت فوقیت دی اور قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان زبان کے طور پر فروغ دیا۔ دوسری طرف ایک عظیم مثال ہمارے چینی بھائیوں نے قائم کی انھوں نے اپنی چینی زبان کو فروغ دیا۔

خود دار اور با وقار ملک ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان کی قدر کرتی ہیںجو ان کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہیں قدر اور فخر محسوس کرتی ہیں۔ اپنی زبان کی اہمپت اندازہ تبھی ہوتا ہے جب کسی بیرون ملک میں جا کر اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبان کو فوقیت دی جانا مجوری بن جاتی ہے اردو زبان واحد زبان ہے جس میں تازگی اپنا پن محسوس ہوتا ہے اردو زبان بول کر ہم باآسانی اپنی بات اپنے پیغام کو پہنچا سکتے ہیں جواثر بھی کرتی ہے دنیا میں جن قوموں نے ترقی کے مراحل تیزی سے طے کئے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی ثقافت اوراپنی قومی زبان کو اہمیت دی ہے زبان کسی بھی ملک شناخت ہوتی ہے۔

اس اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزی زبان اور دوسری زبانیں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ بنتی ہےباقی زبانوں کی اپنی جگہ اہمیت افادیت اپنی جگہ موجود ہے۔ انگریزی زبان کوبین الاقوامی معاملات زیر بحث لائیں ہم اپنے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے۔ لیکن ہماری قومی زبان اردو کی اہمیت اپنی ہی جگہ ہے ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی زبان کو ہمیشہ ہر معاملے میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
قومی زبان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے جو قومیں اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور ورثے کا خیال رکھتی ہیں وہی دنیا میں ترقی کرتی ہیں اردو پاکستان کی قومی زبان اور دنیا میں بولی جانے والی پہلی پانچ زبانوں میں سے ایک ہے،

اردو کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہندوستان پر برطانوی راج کے دور میں شمالی ہندوستان میں اردو رابطے کی سب سے موثر زبان کے طور پر تسلیم کی گئی تھی اور یوں سرکاری طور پر اردو نے فارسی کی جگہ لے لی۔

1837 میں اردو کو انگریزی کے ساتھ سرکاری درجہ حاصل ہوا۔ یہ زبان مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بھی موثر ترین پل کے طور پر استعمال ہوتی تھی اس موقع تک ہندوستانی زبان نستعلیق رسم الخط ہی میں لکھی جا رہی تھی اور اس وقت اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ایسے میں آریا سمائی احتجاج شروع ہوا، ہندوستانی کے لیے مقامی دیوناگری رسم الخط پر زور دیا گیا۔ اسی تناظر میں ہندوستانی زبان کو دو الگ الگ رسم الخط میں لکھا جانے لگا اور یہیں سے اردو اور ہندی کی راہیں جدا ہوئیں۔
اس دور میں اردو بولنے والے معاشرے کے سامنے ایک بہت ہی اہم مسئلہ اپنی زبان ، اپنی ثفاقت اور تشخص کا تحفظ کا ہے زبان کا لکھنا پڑھنا اور اس کی نظم ونثر کا تعارف ، حساب، ماحول کی سمجھ اور مل جل کر رہنے کی صلاحیت شامل ہے پرائمری تعلیم کے بنیادی مقاصد میں زبان اور کلچر کا تحفظ اور آگے منتقلی ہے اردو زبان کے سکھنے کے لئے پانچ سال بہت ہوتے ہیں ۔ اسے اورمنظم مربوط اور موثر بنائیں اس کی جدید کاری پر توجہ دی جائے

email : saima.arynews@gmail.com
Twitter Account : https://twitter.com/saimarahman6

Leave a reply