ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے .تحریر:فیصل رمضان اعوان

4 ہفتے قبل
تحریر کَردَہ
faisal

پنجاب کے مختلف علاقوں میں ان دنوں گندم کی کٹائی زوروشور سے جاری ہے بارانی علاقوں میں کٹائی کا عمل تقریبا مکمل ہوچکا ہے جبکہ نہری علاقے جہاں گندم کے فصل کو پانی دیا جاتا ہے وہاں یہ سلسلہ کہیں کہیں اب شروع ہورہا ہے اور کچھ علاقوں میں ابھی کٹائی ہونا باقی ہے ہم چونکہ بارانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں زیر زمین پانی بھی بہت گہرائی میں ہے اور ہمارے لوگوں کو زراعت میں اتنی دلچسپی بھی نہیں ہے خیر یہ ایک الگ موضوع ہے آج کل کچھ لوگ جدیدیت کی طرف بھی آرہے ہیں منی ڈیم کنووں اور بور کی مدد سے پانی حاصل کرکے زمینوں کو سیراب کیا جارہا ہے اور مختلف فصل سبزیاں اگائی جارہی ہیں لیکن بہت کم تعداد میں لوگ اس طرف آئے ہیں
تو یوں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمارے اس پوٹھوہاری علاقے تلہ گنگ کے گردونواح میں گندم کی کٹائی کا کام مکمل کرلیا گیا ہے اب ہر طرف تھریشر سے اٹھتے گردوغبار ہیں جو دن بھر دیکھنے کو ملتے ہیں یہ ماضی سے بالکل مختلف زمانہ ہے اس وقت ہم ایک دوسرے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں

آج کی تحریر کا مقصد ماضی کی کچھ یادوں کو ہی تازہ کرنے کا ہے چونکہ موسم بھی گندم کی کٹائی کا ہے اور ہمارا آج کا موضوع بھی یہی ہے تو ہم ذرا اسی اور نوے کی دہائی میں یادوں کے سہارے واپس اسی سہانے زمانے میں چلتے ہیں اور ان بیتے سنہری دنوں کی یاد میں کچھ لمحے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اسی اور نوے کی دہائی کا ذکر اس لئے ضروری سمجھا کہ یہی وہ دن تھے جب ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور والدین کا ہاتھ بٹانے کا عملی کردار بھی ادا کیا بے شک وہ کردار ہم سے زبردستی ادا کروایا گیا لیکن ہم اس کا مکمل حصہ تھے اور آج وہ بیتے دن وہ سہانے دن بہت یاد آتے ہیں ہاں کچھ دماغ سے محو بھی ہوئے کیونکہ اب ہم چپکے سے جوانی کی دہلیز کو پارکرچکے ہیں اور اس عمر میں اکثر بھولنے کی عادت بھی ہو جاتی ہے اور آج کل تو آئے روز ہمارے ساتھ کوئی ایسا واقعہ ہوہی جاتا ہے جس میں ہمیں یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ واقعی بڑھاپا کتنا مشکل ہوتا ہوگا جو بہت قریب بھی آچکا ہے

صبح سویرے فجر کی اذان سے قبل کسان حضرات اپنی کھیتوں میں گندم کی کٹائی میں جانے کے لئے اٹھ جایا کرتے تھے گھر کی عورتیں روٹیاں پکانے اور لسی مکھن بنانے کے کام کو جلد نمٹاکر مردوں کے شانہ بشانہ پورا دن گندم کی کٹائی میں مصروف عمل رہا کرتی تھیں نماز ظہر سے تھوڑا پہلے کھانے اور چائے کا وقفہ ہوتا تھا اس سے قبل پانی کے ساتھ گڑ کھانے کا ایک آدھ وقفہ بھی ہوتا تھا جو بہت ہی مختصر وقت کے لئے ہوتا تھا نماز ظہر کی ادائیگی انہیں کھیتوں میں لگے گھنے درختوں کے نیچے ادا کی جاتی تھی اور کچھ وقت سستانے کے بعد پھر سے کھیتوں میں یہی عمل دہرایا جاتا تھا عصر کی نماز کے بعد چھٹی ہوتی تھی اور لوگ گھروں کو روانہ ہوجایا کرتے تھے تب ٹریکٹر نہ ہونے کے برابر تھے اکثر کسان اپنے جانور گائے بیل کی مدد سے ہل چلا کر اور زمین کو اچھی طرح ہموار کرکے اس میں گندم یا اور فصل بویا کرتے تھے یقین کریں اس زمانے میں لفظ خیروبرکت کی اہمیت کا ذرا بھر علم نہ تھا بالکل سمجھ نہیں تھی گزرے دنوں کی خیروبرکت کا آج سے موازنہ کیا تو اپنا دامن خالی پایا اور غموں کی اس دنیا میں اپنے آپ کو غفلت میں ڈوبتا دیکھا آج خیروبرکت ہمارے گھروں کھیتوں اور کہیں بھی پورا وجود نہیں رکھتی یہ حقیقت ہم پر اب عیاں ہوئی ہےاس وقت جدید مشینری کے ذریعے کھیتی باڑی کی جارہی ہے اسی زمین سے سوسو بوری گندم کی پیداوار ہوتی تھی اور آج دس سے پندرہ بوری بمشکل ۔۔۔

کٹائی کا یہ عمل آٹھ دس روز رہتا اس کے بعد مقامی اوٹھی اپنے اونٹوں پر گندم لاد کر کھلیان تک پہنچایا کرتے تھے اور اپنا پہاڑہ وصول کرتے تھے جو اناج کی شکل میں ہوتا تھا کھلیان پر ایک ڈھیر سا لگ جایا کرتا تھا اور کچھ دن بعد اس گندم کو کھلیان پر بکھیر کر گائے اور بیل کے پیچھے میڑھے باندھ کر گندم کو گہائی کے عمل سے گزارا جاتا ہم اکثر ان میڑھوں پر بیٹھ کر سواری سے بھی لطف اندوز ہواکرتے تھے یوں دن بھر بکھری گندم پرجانوروں کو گھماگھما کرگہائی کے بعد گندم کو اکٹھا کیا جاتا اور ایک لمبا سا ڈھیر لگایا جاتا اور دور کہیں سے ہوا کا جھونکا آتا تو ترینگل کی مدد سے اس گندم کوہوا میں اڑایا جاتا جس سے گندم کا بھوسہ الگ اور دانے الگ ہوا کرتے تھے

بعد ازاں گندم کے دانوں کا ایک بڑا سا ڈھیر لگ جاتا جسے گاؤں کے موچی کی مدد سے صاف کیا جاتا کسان کرائی سے دانے ہوا میں اچھالتا اور موچی کا کام ان دانوں کی مزید صفائی کے لئے جھاڑو لگانا ہوتا تھا اس کے بعد گندم کے دانوں کی بوریاں بھریں جاتیں اور کسان اپنے کندھے یا کچھ فاصلہ ہوا تو گدھی کی پیٹھ پر بوری لاد کر اپنے گھروں تک پہنچایا کرتے تھے ماضی میں گندم کی کٹائی کے زمانے بڑے دلچسپ بڑے سحرانگیز ہوا کرتے تھے گاؤں میں ہمارے گھر کے عقب میں آباد ی نہیں تھی ایک جنگل سا تھا جنگلی جانور پرندے آزادانہ گھوما کرتے تھے گندم کی کٹائی کے دنوں میں جب ہم صبح سویرے بیدار ہوتے تو ایک پرندہ جسے ہم مقامی زبان میں ڈورڑی کہتے تھے روزانہ اللہ رب العزت کی تسبیح بیان کرتا سنائی دیتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اس پرندے کا گھونسلہ ہم سے چالیس پچاس فٹ اونچا کھلے آسمان تلے معلق ہے لیکن ہمیں بعد میں پتا چلا کہ اس کا گھونسلہ تو زمین پر پھیلے کھپی کے پودوں میں ہے جس کے انڈے اور بچے بھی ہم کبھی کبھی چرا لیا کرتے تھے وہ پرندہ چالیس پچاس فٹ کے فاصلے کی اونچائی پر اپنے معصوم سے پروں کو پھیلا کر ایک جگہ رک جاتا تھا اور اپنے رب کی تسبیح بیان کرتا رہتا تھا

برسوں بعد اس پرندے کی موجودگی بارے ہم نے ایک دفعہ اپنی والدہ محترمہ سے پوچھا کہ کیا اب بھی وہ پرندہ صبح منہ اندھیرے اٹھ کر کھلے آسمان کے نیچے ہوا میں معلق ہوکر اپنی معصوم سی بولی میں اپنے رب کی حمد سناتا ہے تو والدہ محترمہ نے ہمیں بتایا کہ نہیں اب وہ پرندہ ناپید ہوچکا ہے یہاں اس کی نسل ختم ہوچکی ہے اوراس کی آواز ایک عرصے سے سنائی نہیں دی ، ہمارے ہاں مقامی سطح پر اب وہ ماضی کی یادیں ہی بچی ہیں اوراب ان یادوں کو سنانے والے بھی دھیرے دھیرے اس معصوم پرندے کی مانند غائب ہوتے جارہے ہیں ہماری طرح کے چند لوگ آج بھی ماضی کے اس خوبصورت زمانے کو یاد کرتے ہیں لیکن وہ زمانہ اب گزر چکا ہے بس یادیں ہی بچی ہیں باقی کچھ بھی نہیں بچا نہ وہ محبتیں رہیں نہ وہ رشتوں کے احترام رہے اور نہ ہی وہ اعلی اقدار اور روایات زندہ رہیں
زمانہ بڑی شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

Latest from معاشرہ و ثقافت

آسمانی شادی

غربت کی رسی سے خودکشی کرنے والے باپ کی بیٹی کے نصیب ظفریات کتاب کا حقیقت پر مبنی دل سوز مضمون: آسمانی شادی تحریر: