سوشل میڈیا پر حقائق دیکھے بغیر تنقید کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے،چیف جسٹس

0
33

سوشل میڈیا پر حقائق دیکھے بغیر تنقید کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے،چیف جسٹس
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا معاملہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کردی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے معاملے کا جائزہ لیا ، صلاح الدین اور فاروق نائیک کو بھی سنیں گے ،وکلا میرٹس پر دلائل دینا شروع کردیں ،عرفان قادر نے کہا کہ اس طرح تو نہیں ہوگا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ابھی ہم سب کو سنیں گے، اس کے بعد دیکھیں گے، ہمارے سامنے کچھ سوالات ہیں اس پر ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں ،عرفان قادر نے کہا کہ میری ہدایات فل کورٹ کی تھیں کیا میں مزید بات کرسکتا ہوں یا نہیں اس پر ہدایات لینے کا وقت دیا جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم 24گھنٹے یہاں بیٹھے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی ہدایات لے لیں، عثمان اعوان نے کہا کہ میرٹس پر بات کرنی ہے تو ہمیں ہدایات لینا ہیں، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ن لیگ اور وزیراعلی پنجاب نے فل کورٹ کی استدعا کی ہے،

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم نے سب کے دلائل سنے ہیں جو فل کورٹ کے حوالے سے ہیں،اس پر ہم مزید سنیں گے،آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں یا پھرمیرٹس پر سننے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے یا نہیں؟ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے واضح ہدایات ہیں کہ فل کورٹ بنے، ہم یہ نہیں کررہے کہ فلاں چیز چاہیے کہ یا نہیں ہم بولیں گے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر نظرثانی کی درخواست سماعت کے لئے رکھتے ہیں تو آپ کامیاب ہوجاتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا یہ فورم شاپنگ ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس آئینی ترمیم کا ہوسکتا ہےہم اس لئے اٹھ کر گئے کہ سوچیں ، ہم نے پیچیدہ آئینی معاملات کو دیکھنا ہے، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کا بھی ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ صاحب آپ جو بات کررہے ہیں وہ آپ کی استدعا ہی نہیں ہے، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بڑے صوبے کے وزیر اعلی چاہے کوئی بھی ہو اس کو گھر بھیجنا نہیں چاہیئے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے ، وہ پانچ رکنی بینچ تھا، آپ نے تو اس معاملے پر مٹھائیاں پانٹی تھیں،آج تک جن معاملات پر فل کورٹ بنا ہے وہ انتہائی سنجیدہ معاملہ تھا ،اعظم نذیر تارڑ صاحب آپ نے غلط بات کی، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہو ں سر، عرفان قادر نے کہا کہ پہلے آپ نے کہا کہ میرٹس پر بات کرینگے، چلیں اب میں دلائل دیتا ہوں، عدالت نے کہا کہ آپ کا شکریہ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وزیر قانون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا هر لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے آپ کو احتیاط سے کام لینا چاہے۔ عدالت کو متنازعہ نہ بنائیں، ہم ضمیر اور آئین کے مطابق فیصلہ کریں گے، ہمیں ڈکٹیشن مت دیں، روسٹرم چھوڑ دیں اور بیٹھ جائیے، اگر اپ دلائل نہیں دینا چاہتے تو ہم لکھ دیتے ہیں،بطور حکومتی وزیر آپ کی بات مناسب نہیں ،عرفان قادر نے کہا کہ اگر آپ لارجر بینچ پر دلائل سننا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں،ہم فل کورٹ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ جو قانونی سوالات ہیں ان کا جواب آنا چاہیئے،عفل کورٹ کے لئے درخواست گزار کی جانب سے کوئی بات نہیں کی گئی، جسٹس قاضی فائز عیسی والا کیس 14 رکنی بینچ نے سنا تھا،ہر بار وہ ہی جج صاحبان اسی بینچ میں آتے ہیں تو پھر میں کیا کہوں ؟میرے بولنے پر آپ کو کچھ ناراضگی ہوئی ہےجو نہیں ہونی چاہیئے تھی ،عدالت نے ساڑھے گیارہ بجے لاہور میں مختصر حکم نامہ دیا اور میرے موکل نے ساڑھے بارہ بجے رابطہ کیا،لیکن بنچ نے لکھا کہ میں تیار نہیں تھا میں تیار ہو ہی نہیں سکتا تھا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے یہ سماعت اس لئے رکھی ہے کہ آپ تیاری کرسکیں، فل کورٹ کی استدعا کی گئی،ہم نے سوچا ہے کہ فل کورٹ اس وقت بنایا جاتا ہے جب معاملات پیچیدہ ہوں ،منصور اعوان نے ہمارے سامنے کچھ عدالتی نظیریں رکھی جس پر ہمیں لگا کہ فل کورٹ انتہائی سنجیدہ معاملات پر تشکیل دیا جاتا ہے،عرفان قادر نے کہا کہ کیا یہ پیچیدہ معاملہ نہیں ؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نہیں یہی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے ، ہمارا س معاملے پر فیصلہ آچکا ہے، اگر اپ تیار ہیں تو آپ کو سنتے ہیں نہیں تو منصور اعوان صاحب کو سن لیتے ہیں ،یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں جس کو بڑھایا جائے اسکو چھوٹا کیا جاسکتا ہے، ہم نے وفاقی حکومت کے کیس میں ازخود نوٹس لیا،اس میں ہماری نظر میں ڈپٹی اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کی، عرفان قادر نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ عدالت کا وقت بچائوں،مخالف فریق کے وکیل نے جو فیصلوں کے نظائر دیئے ہیں اس ک جائزہ لینا چاہتے ہیںاگر نظرثانی کی درخواست میں منحرف ارکان کے ووٹ گنے جاسکتے ہیں تو پھر scnarioتبدیل ہوسکتا ہے ،عدالت نے کہا کہ ہم آپ کی یہ بات لکھ لیتے ہیں،عرفان قادر نے کہا کہ ہر معاملے پر ایک ہی بینچ بننے کے بارے میں سوشل میڈیا پر بات ہورہی ہے اگر یہ بینچ کیس سنتا ہے تو تمام فریقین کو۔عزت ملنی چاہیئے،بنچ کی غیرجانبدار ہونے پر بھی کوئی ابہام نہیں لیکن اگر ابہام ہو تو اس کو فل کورٹ بناکر ختم کیا جاسکتا ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں دن اور شام کو سماعت کرکے چار دن میں فیضلہ سنایا، عدالت نے اس کیس میں کوئی از خود نوٹس نہیں لیا،ایک ایسی پارٹی جو اپنے امیدوار کو ڈاکو کہتی تھی وہ اب اس کے ساتھ ہے فل کورٹ معاملے پر عدالت فیصلہ دے نظرثانی دائر کروں گا،جلد بازی میں مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہونا چاہے، نظرثانی دائر کرنا آئینی حق ہے جو استعمال کرینگے،عدالت کے گزشتہ حکم نامہ میں تضاد ہے، چوہدری شجاعت ملک کے بہترین سیاستدان ہیں وہ اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اس میں خدارا جلدی نہ کریں، آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہوسکتے ،آپ بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں تو بہتر ہوگا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیڈرل گورنمنٹ کے معاملے پر ہم نے سوموٹو لیا اس کیس میں ہم نے سوموٹو نہیں لیا،عرفان قادر نے کہا کہ یہ بات کہ ایک سیاسی پارٹی کو جلدی ریلیف ملے گا ، ان کے سربراہ نے جھوٹ بولا، ان کے صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی،عرفان قادر نے دلائل مکمل کرلئے ،،واپس سیٹ پر بیٹھ گئے

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک کے دلائل شروع ہو گئے ،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ معاملہ چند دنوں میں حل ہوسکتا ہے۔ہمیں کیس کی تیاری کے لیے کچھ وقت درکار ہے میں چاہتا ہون کچھ وقت دیا جائے تاکہ معاملہ کچھ ٹھنڈا ہو ،میں رات ہی کراچی سے ایا ہوں تیاری کے لئے وقت دیں ،اس کیس کو روٹین کے مطابق رکھ لیں،اپ جمعرات کو صبح سے شام تک اس معاملے کو سن لیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عرفان قادر اور منصور عثمان نے دلائل میں کہا کہ پارٹی ہیڈ کا کردار سپرنٹنڈنٹ کا ہوتاہے،آپ 63 والے کیس میں پیش ہوئے، میرا خیال ہے کہ اس کا فیصلہ پڑھ لیا تھا۔ہمیں آپ کی گائیڈنس کی ضرورت ہے فاروق نائیک اپ پارلیمینٹری کمیٹی کے سربراہ، وزیر قانون رہے ہیں، ہمارے پاس 54 ہزار کیس التوا کا شکار تھے، اب وہ کم ہوکر 47 ہزار پر پہنچے ہیں،ہمارے ججز محنت کررہے ہیں، چھٹیوں میں بھی کام کررہے ہیں سوشل میڈیا پر حقائق دیکھے بغیر تنقید کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے، ہم آپ لوگوں کو سنیں گے، حکومتوں کو آئین کے مطابق بننا چاہیئے لیکن سوال ہے کہ ووٹ کیسے گنے جائیں ،وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ عدالت دباو میں ہے، یہ نا سمجھیے گا کہ میں سپریم کورٹ کی بے توقیری کر رہا ہوں،میرے لیے بھی یہ عدالت اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کیلئے،ہم نے آنا ہے اور چلے جانا ہے لیکن ادارے برقرار رہیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس عدالت میں فاروق نائیک صاحب آپ کے کولیگز نے پارٹی میں آمرانہ سوچ کی بات کی تھی،آپ اٹھارویں ترمیم کرنے والوں میں شامل تھے آپ نے اختیارات پارلیمانی پارٹی کو دیئے،ہم نے پارلیمان اورجمہوریت کو مضبوط کرنا ہے،

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان کے مسائل پارلیمان میں حل ہونے چاہئیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لیکن اگر آئین کی خلاف ورزی ہوگی تو معاملہ عدالت میں آئیگا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آپ کے پاس سینیٹ الیکشن کی درخواست زیر التوا ہے،ہاوس کی اندرونی کارروائی کا معاملہ ہے، اس پر آپ کو فیصلوں کی مثال دونگا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کی تشریح کا گولڈن اصول یہ ہے کہ جو معاملہ عدالت میں ہے اس کی تشریح کی جائے، سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو صحیح استعمال کیا یا غلط؟ اگر غلط استعمال کیا تو ہم اس کو درست کرینگے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات نہیں، ہم نے دیکھنا ہے کی پارلیمانی پارٹی کے اختیار پر پارٹی سربراہ نے تجاوز کیا،اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کو کوئی ہدایات نہیں،فاروق نائیک نے کہا کہ میری فریق بننے کی درخواست کونمبر نہیں لگا، عدالت نے کہا کہ آپ کو کہہ دیا ہے کہ آپ کوسنیں گے، ،بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میں نے فریق بننے کی درخواست دی ہے میں اس کیس میں نئی دستاویز فائل کرونگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ جو ہمارے فیصلے پر انحصار کرتی یے اس کو دیکھنا ہے،وکیل چودھری شجاعت نے کہا کہ عدالت عظمی کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں پارٹی سربراہ کو ہدایت کا اختیار ہے،ایم پی ایز اور ڈپٹی اسپیکر کو بھیجے خطوط کا ریکارڈ جمع کرائوں گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہوتی ہے ،صلاح الدین نے کہا کہ اگر ایک پارٹی کے سترہ ممبر ایک سینیٹر کو منتخب کرتے ہیں اور وہ اکیلا سینیٹر ہوتا ہے تو کیا وہ اپنی مرضی چلائے گا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم اس کیس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں ،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی میں پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہئے،پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کئی جماعتیں کہتی ہیں کاغذوں میں نام کسی کا بھی ہو ہمارا قائد فلاں ہے،اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے قائد کوئی بھی ہو،ووٹ کا فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہوتا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان بھی فیصلوں میں الگ رائے ہوتی ہے،چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر ہوتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک پہلو جو اہم ہے وہ پولرائز سیاسی ماحول بن جانا ہے،ایسے ایشوز کو حل ہونا چاہیئے تا کہ حکومتیں اپنا کام کرتی رہیں، اگر اپوزیشن بائیکاٹ کرتی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ نظام چلنا چاہیئے، جمہوریت میں اپوزیشن کا اہم کردار ہوتا ہے ملک کی معاشی صورتحال پر ہر شہری پریشان ہے۔ملکی کرنسی ہر روز گررہی ہےکیا وہ ہماری مداخلت کی وجہ سے ہے؟ کیا یہ سب کچھ سیاسی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ 8 ججز کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تو 9 ججز بھی سماعت کرسکتے ہیں، آپ اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، یہ دیکھیں اکیسویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا؟بینچ کے رکن جتنے بھی ہوں فیصلے کا تناسب بدلتا رہتا ہے،بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ مجھے سو فیصد آپ سمیت سب ججوں پر اعتماد ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ خود سے پوچھیں کہ آئین کے مطابق کون ہدایات دے سکتا ہے، دو ججز کے علاوہ تمام ججز یہاں موجود ہیں، ہم ایسا ماحول بنانا چاہتے ہیں جو سائل کے فائدے کا ہو،ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں اختلافات کی فضا برقرار رہے، فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکے گا کیا اس وقت تک سب کام روک کے رکھیں؟ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور 179 لینے والا وزیراعلی ہے،حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہےریاست کے کام چلتے رہنے چاہیں،عدالت کے فیصلے پر انتخابات ہوئے اور پر امن طریقے سے ہوئے، ہمیں یہ ڈھونڈ کر دے دیں کہ کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ غیر منتخب بھی ہو تو اس کی بات ماننا ہوتی ہے،

وکیل چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ عدالت مختلف مقدمات میں پارٹی ہیڈ کے بارے میں فیصلے دے چکی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جن مقدمات کی آپ بات کررہے ہیں ان میں مدعا کچھ اور تھا، آپ کے دلائل بظاہر غیر جمہوری ہیں آپ اپنے اراکین کو ڈمی سمجھتے ہیں؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوے بھی موجود وزیراعلی کو کام سے نہیں روکا تھا،الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے، آپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے ،وکیل چودھری شجاعت نے کہا کہ ہم کیس کو بالکل طویل نہیں کرنا چاہتے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاوہ صرف دو ججز ہی یہاں دستیاب ہیں کوشش کر رہے ہیں جہاں عدالت انے والوں کو سہولیات دیں ، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ امریکہ میں ججز سیاسی جماعتیں اور حکومت تعینات کرتی ہیں، شکر ہے پاکستان میں ایسا نظام نہیں ہے، فاضل بنچ رات کے 7 بجے بھی موجود ہے تو باقی ججز بھی خوشی سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ ججز دستیاب نہیں ہیں، وکیل چوہدری شجاعت نے کہا کہ جو ججز دستیاب ہیں وہ بھی بیٹھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں،عدالت نے کہا کہ ہم تین ججز کے علاوہ صرف دو مزید ججز شہر میں ہیں، وکیل صلاح الدین نے کہا کہ وڈیو لنک کے ذریعے بھی ججز شریک ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وڈیو لنک شکایت کنندگان کی سہولت کے لیے ہے، وزیراعلٰی کے انتخاب کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے،

سماعت میں پندرہ منٹ کا وقفہ کر دیا گیا

Leave a reply