ہمارا مقصدِ حیات تحریر : حلیمہ اعجاز ملک

0
43

دنیا ایک امتحان گاہ ہے جس میں اللّٰه نے ہمیں آخرت میں ہونے والے امتحان میں تیاری کے لیے پیدا فرمایا ہے تا کہ بروزِ قیامت یہ معلوم ہو سکے کون اطاعتِ خداوندی کا پیکر بنا رہا اور کون نافرمانوں کی فہرست میں رہا

ہمیں اس امتحان کی تیاری کے لیے پیدائش سے لے کر موت تک کا جو مخصوص وقت دیا گیا ہے اس دورانیے میں اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی اللّٰه اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے بسر کرنی ہے اور یہی ہمارا "مقصدِ حیات” ہے

آتے ہوئے اذان اور جاتے ہوئے نماز
قلیل وقت میں آئے اور چلے دیئے

اللّٰه نے ہمیں عبادت و اطاعت کے ذریعے اپنی رضا حاصل کرنے کے لیے زندگی کی انمول نعمت سے نوازا ہے پس جس شخص کی زندگی میں بندگی نہ ہو بھلا وہ بھی بندہ ہے؟؟ کیونکہ بے بندگی رضائے خداوندی کے حصول میں سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہوگا

ہزاروں مصروفیات کے باوجود دنیا کے لیے جیسے بھی ممکن ہو ہم وقت نکال ہی لیتے ہیں تو کیا جس مقصد کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے تھوڑا سا وقت بھی نہیں نکال سکتے؟ اس سلسلے میں ہمارا طرزِعمل کیسا ہے اس پر خود ہی غور فرما لیجیے کیونکہ ہمارا مقصدِ حیات تو رضائے خداوندی کا حصول ہے

مگر افسوس! صد افسوس! ہم اس سب سے غافل ہو کر دنیا کی ترجیحات میں مگن ہو چکے ہیں۔

ہمارے مذہب کا نام اسلام ہے اور ہم مسلمان ہیں اگر ان الفاظ کے معانی پر غور کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمیں تو احکامِ اللّٰه کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کا حکم ہے مگر شاید ہم دَھن کی دُھن میں نہ صرف اپنے مقصدِ حیات کو بھول کر رحمتِ خداوندی سے دور ہو چکے ہیں بلکہ خود اپنے آپ سے بھی غافل ہو چکے ہیں

حیرت شیخ ابوطالب فرماتے ہیں کہ اللّٰه نے اہلِ سلامتی و نجات کے دو گروہ بنائے ہیں جن میں سے کچھ، کچھ سے افضل ہیں جبکہ ہلاکت و بربادی والے افراد کا صرف ایک ہی درجہ ہے ان میں سے کچھ، کچھ سے پستی میں ہیں۔ لہٰذا بروزِ قیامت جن لوگوں کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ہوگا وہ ان کا دل اس حسرت میں مبتلا ہو گا کہ وہ دائیں ہاتھ والوں میں کیونکر نہ ہوئے۔ اور دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیئے جانے والے اس حسرت میں مبتلا ہوں گے کہ وہ مقربین میں کیونکر نہیں اور مقربین اس حسرت میں مبتلا ہوں گے کہ وہ شہدا میں کیوں شامل نہیں اور شہدا چاہتے ہوں گے کہ وہ مقامِ صدیقین پر فائز ہوتے

الغرض یہ دن حسرت کا ہوگا جس سے غافلین کو ڈرایا گیا ہے پس جو لوگ آج یہاں مردہ ہیں کل وہاں ان کی حالت کیسی ہوگی؟ کیونکہ ان کے پاس تو کوئی نیکی نہ ہو گی۔

اپنے مقصدِ حیات کو پہچانیے اور اللّٰه کی رضا و عبادت میں خود کو پا لیں اور زندگی کو حقیقت معنوں میں جیئیں۔ ہماری زندگی کا حقیقی مقصد یہی تو ہے

اور بے شک دونوں جہانوں میں اللّٰه کی رضا اور خوشنودی کا کوئی نعم البدل نہیں
اور اللّٰه کی خوشنودی پانے کا بہترین ذریعہ اس کے رسولؐ کی سنت و احکام پر عمل کرنا ہے۔ اللّٰه اور اس کے رسول کی پیروی ہم سب پر واجب ہے

اپنی سانس کی مالا کے ٹوٹنے سے خود کے آنے کا مقصد پہچانیے اسی میں بھلائی و بہتری ہے آج کی بھی اور آنے والے کل کی بھی اور اس کے بعد روزِ محشر میں بھی یہی ہماری مددگار بھی ہوگی

وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ

@H___Malik

Leave a reply