ہمارا نظام تعلیم اور اس کو درپیش مسائل تحریر: جام محمد ماجد

0
53

حصول علم میں ہوتا ہے بہت جاں کا ضیاع
منزلیں یونہی سر راہ ملا نہیں کرتیں

یہ امر مسلمہ ہے کہ تعلیم کا بہتر نظام کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ کسی قوم کے بہتر کردار کا سر چشمہ ہوتا ہے اس حقیقت کے تحت ہر ملک وقوم کے افراد بہتر نظام تعلیم کے متقاضی ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ تعلیم ایک متحرک عمل ہے جو زمانے کے تغیرات اور تبدیلیوں کے تحت جاری و ساری رہتا ہے ۔ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اپنے مروجہ نظام تعلیم کے حالات کا بخوبی اندازہ ہوسکے گا کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم سے کیا حاصل کیا اور کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ۔
ہمیں جب نیا اور آزاد پاکستان نصیب ہوا تو بد قسمتی سے ہمیں غلامانہ اور فرسودہ برطانوی نظام تعلیم ملا جو کہ ہماری روایات اور فلسفہ حیات سے کسی بھی طرح ہم آہنگ نہ تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کی پہلی قومی تعلیمی کانفرنس نومبر 1948 کو کراچی میں منعقد ہوئی جس کا مقصد ہمارے نظام تعلیم میں نہ صرف بہتری لانا تھا بلکہ ایسا تعلیمی نظام مرتب کرنا تھا جو کہ اسلامی نظریہ حیات سے ہم آہنگ ہو اور جس کے تحت فرد کی شخصیت کی مکمل نشوونما کی جائے اور اسے معاشرے کا بہترین رکن بنایا جائے ۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ آج 71 سال گزرنے کے بعد بھی ہمارا نظام تعلیم اس قابل نہیں ہو سکا۔ ہم نے وہی غلامانہ روش اختیار کیے رکھی ہے اور انگریزی کو اپنا معیار تعلیم بنا رکھا ہے جبکہ انگریزی صرف اور صرف ایک زبان ہے۔
اگر ہم اپنے نظام تعلیم کا تجزیہ کریں تو کیا ہم نے وہ عمومی مقاصد حاصل کیے جس کے تحت یہ نظام تعلیم مرتب کیا گیا تھا اور کیا تعلیم جو کہ بذات خود ایک متحرک عمل ہے کے تحت اس نظام میں تبدیلیاں کی گئیں ہیں؟ یقینا نہیں ••••
اور جہاں تک بات ہے اس نظام کو درپیش مسائل کی تو وہ مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں قابل ذکر منصوبہ بندی کی کمی ۔ بجٹ کی کمی ۔ غیر تسلی بخش اور غیر متحرک نصاب ۔ پست معیار تعلیم ۔ بد عنوانی ۔ غیر تربیت یافتہ اساتذہ ۔ ناقص امتحانات کا نظام ۔ نفسیاتی مسائل ۔ نا مناسب نظم ونسق ہیں ۔
میں اپنی بات کا اختتام علامہ اقبال کے اس شعر سے کرنا چاہوں گا
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہےفقط دین وثروت کےخلاف
@Majidjampti

Leave a reply