نیا سال مبارک۔۔۔ایک مختلف نقطہ نظر تحریر ۔ شفقت مسعود عارف

0
34

نیا سال مبارک کے شور میں حقیقت کہاں دفن ہو جاتی ہے اس کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں کوئی جوش و خروش سے مبارک دیتا ہے تو کوئی اسے غیر اسلامی کہہ کر تنقید و فتوے جاری کرتا ہے

مگر حقیقت یہ ہے کہ شمسی اور قمری دونوں طریقہ پر سال و ماہ  کا حساب رکھا جا سکتا ہے اس کا حوالہ سورہ رحمان میں ہے 

الشمس والقمر بحسبان

"سورج اور چاند ایک حساب سے ہیں ” یعنی ان کا سائز، لوکیشن وغیرہ کے ساتھ انکی حرکت کی رفتار اور سمت ایک طے شدہ حسابی فارمولا سے ہے اسی فارمولا کے تحت انکی کسی طے شدہ وقت پر کسی جگہ موجودگی کا بالکل صحیح تخمینہ لگایا جا سکتا ہے اسی وجہ سے ان سے ماہ و سال کا صحیح ترین حساب بھی کیا جا سکتا ہے

جیسے اصحاب کہف کا عرصہ خواب قرآن میں ہے ا300 سال اور 9 مزید ۔ یہ بڑا مختلف سٹائل ہے بتانے کا۔ لیکن اس کا ایک خاص مقصد و مطلب ہے شمسی  حساب سے دراصل 300 شمسی سال 309 قمری سال  کے برابر ہوتے ہیں جیسے ایک شمسی سال 365.2422 دن کا ہوتا ہے جبکہ ایک قمری سال 354.367 دن کا ہوتا ہے

اب شمسی سال کو 300 اور قمری سال کو 309 سے ضرب دیں تو دونوں کا حاصل ضرب برابر آتا ہے

مگر یہاں معاملہ شمسی سال جسے عیسوی سال کہتے ہیں یا قمری سال جسے اسلامی سال کہتے ہیں کی تعداد یا گنتی کا ہے جس کی بنیاد پر نئے سال کی مبارک کا غلغلہ اٹھتا ہے 

جنوری فروری وغیرہ عیسوی مہینوں کے اپنے نام نہیں بلکہ یہ نام تو گریگورین کیلنڈر سے یونانی دیوی دیوتاؤں کے نام پر پہلے سے چلے آ رہے تھے سال کی شمسی گردش کو 12 پر تقسیم کر کے یہ نام رکھے گئے تھے 

چونکہ سینٹ پال نے جلا وطنی کے کئی سال یونان میں گزارے اسلئے وہ نا صرف وہاں کے بت پرستوں کے عقیدہ تثلیث سے متاثر ہوا جہاں سورج دیوتا، سورج کا بیٹا اور سورج کی بیگم صاحبہ کی خدائی کا تصور تھا اس پر قسطنطین نامی بادشاہ نے جس نے عیسائیت قبول کر لی تھی اور اس کی ترویج کا فیصلہ کیا تھا انہی مہینوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا

لیکن اگر یہ سن عیسوی پر منطبق کریں بھی تو عیسائی 25 دسمبر کو عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش مانتے ہیں جو اگرچہ بذات خود بائبل اور قرآن سے غلط ثابت ہوتی ہے تاہم اس بحث میں پڑے بغیر بھی اگر دیکھیں تو  پھر عیسوی سال اگر عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے حساب سے ہے تو یہ سال 25 دسمبر پر ختم اور شروع ہونا چاہئے جو کہ نہیں ہے 2017 سال اگر عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے حساب سے ہو تو وہ تو 25 دسمبر کو ہوئے 31دسمبر کو نہیں اس لئے عیسوی نیا سال یکم جنوری کو تو بنتا نہیں

اسی طرح قمری سال یکم محرم سے شروع ہوتا ہے اور سال ہجری رسول اللہ کی ہجرت سے شروع ہوتا ہے اسی لئے اسے اسلامی سال بھی کہتے ہیں

مگر حقیقت یہ بھی بالکل ایسے نہیں ہے کیونکہ ہجرت کا آغاز 26 صفر / 16 جولائی کو ہوا اور یکم ربيع الأول  کو آپ غار ثور سے مدینہ روانہ ہوئے جبکہ قمری مہینے محرم صفر پہلے سے چلے آ رہے تھے اور حج اور تمام حساب انہی مہینوں سے چلتا تھا بلکہ اگر یاد کریں تو ایک طریقہ عربوں میں نسی چلتا تھا جس کے تحت وہ انہی مہینوں کی ترتیب آگے پیچھے کر لیتے تھے چار ماہ تب بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے جن میں جنگ و جدل منع تھا اور عرب اپنی جنگوں کیلئے فرض کر لیتے تھے کہ یہ مہینہ محرم نہیں بلکہ صفر ہے اور کسی اور مہینے کا نام محرم رکھ لیتے تھے لیکن مہینوں کے نام یہی تھے  

اب دیکھیں جب یہ کہا جاتاہے کہ 1438 سال ہجرت کو ہو گئے تو درحقیقت ایسا مکمل درست نہیں ہوتا اس میں دو ماہ کی گنتی کا فرق ہوتا ہے 

یوں نیا سال مبارک کہنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ آپ خواہ مخواہ ایک جھوٹ کو جوش و خروش سے منا رہے ہیں اگر آپ عیسوی یا اسلامی سال سمجھ کر مبارک سلامت کر رہے ہیں تو بس شغل ہی ہے البتہ اگر تعداد کے چکر میں پڑے بغیر آپ شمسی یا قمری سال کے آغاز کی بات کر رہے ہیں تو چل جائے گا

ایک اور ہات یاد رہے سورج و چاند کے چکر کے مقام آغاز کیا ہے ہمیں نہیں معلوم ۔ یہ آغاز و اختتام بھی ہم نے طے کئے ہیں ہو سکتا ہے یہ آغاز دراصل موسم گرما کے کسی مہینے میں ہوتا ہو جیسے جون میں جب دن بڑے اور گرم ہوتے ہیں کیونکہ سوچیں شمسی نظام اور اس میں زمین جب وجود میں آئے تو درجہ حرارت زیادہ تھا تو کیا پتہ آغاز کا وقت دراصل تب ہوتا ہو جسے ہم اس چکر کا وسط کہتے ہیں

لیکن اس میں ٹینشن کی کوئی بات نہیں جیسا سمجھتے ہیں سمجھتے رہیں بس سورج اور چاند کی گردش کو مذہبی جھگڑوں سے نکال دیں یہ اللہ کی تخلیق ہماری سہولت، سمجھ اور تحقیق کیلئے ہیں

Leave a reply